پر حضرت داؤد اور عیسی بن مریم کے واسطے سے لعنت کی ، کیونکہ وہ نافرمانی کرتے تھے ، اور حد سے تجاوز کرتے تھے۔‘‘
حضرت عبد اﷲ بن مسعود ص فرماتے ہیں کہ رسول ں جب یہ فرمارہے تھے تو ٹیک لگائے ہوئے تھے ، اتنا فرماکر سیدھے بیٹھ گئے ، اور فرمایا نہیں ! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے ، یہاں تک کہ تم ان کو روکو۔‘‘ ( مشکوٰۃ شریف ، تفسیر ابن کثیر)
یہ ایک آئینہ ہے جس میں ہم اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں ، کیا بنی اسرائیل کاحال جو قرآن کریم اور حدیث میں بیان کیا گیا ہے،ہماری آنکھوں کے سامنے نہیں ہے ، اور کیا قلوب پر مداہنت خلق کا غلبہ نہیں ہے ، کہیں اپنی آن اور جاہ کا خیال ہے ، کہیں اپنی جماعت اور پارٹی کی حمایت کا مسئلہ ہے ، کہیں اپنی قوم اور برادری کا خوف ہے ، حد تو یہ ہے کہ اب نہی عن المنکر کو تخریب اور جارحیت سمجھاجانے لگا ہے اورطرح طرح کے بے بنیاد شبہات والزامات کااسے مورد قراردیاجاتا ہے ۔
امام غزالیؒ نے حضرت عبد اﷲ بن عمر ص کے متعلق نقل کیا ہے کہ وہ پہلے حکام کے پاس تشریف لے جایا کرتے تھے ، پھر انھوں نے جانا بند کردیا ، ان سے لوگوں نے عرض کیا کہ اگر آپ ان کے پاس تشریف لے جاتے رہتے ، تو ان کے دلوں پر اثر ہوتا ، تو انھوں نے فرمایا کہ میں ڈرتاہوں کہ اگر ان سے بات کروں ، تو کہیں میرے سلسلے میں وہ نہ سمجھ جائیں ، جس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں (یعنی میری نیت کچھ اور ہو ، وہ اسے کسی اور نیت وغرض پر محمول کرلیں ) اور اگر خاموش رہوں تو اندیشہ ہے کہ گنہگار ہوجاؤں گا ۔( احیاء العلوم ،ج:۲، ص:۳۱۱)
اوریہ بالکل امر واقعہ ہے کہ کوئی شخص امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ کسی نیت سے انجام دیتا ہے ،اور لوگ اسے دوسرے مقاصد پر محمول کرنے لگتے ہیں ، اور انھیں اس کا خیال شاید نہیں ہوتا کہ یہ بدگمانی گناہ کے دائرے میں آجاتی ہے۔
پہلے جو بات ’’سلطانی ٔ افراد‘‘ کے دور میں تھی ،اب وہی بات ’’سلطانی ٔ جمہور‘‘ کے دور میں بھی ہے ، تاہم اس دور میں عزلت نشینی اختیار کرکے آدمی اپنی ذمہ داریوں کو کم کرسکتا