عظمت وجلال اور اس کے قوانین واحکام کو بھلا بیٹھے ، اور جو مشائخ اور علماء کہلاتے تھے انھوں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ترک کردیا ، کیونکہ حرص اور اتباع شہوات میں وہ اپنے عوام سے بھی آگے تھے ، مخلوق کا خوف یا دنیا کا لالچ حق کی آواز بلند کرنے سے مانع ہوتا تھا ، اسی سکوت اور مداہنت سے پہلی قومیں تباہ ہوئیں ۔
سورہ مائدہ ہی میں کچھ دور آگے چل کر اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ : لُعِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ عَلٰی لِسَانِ دَاؤُدَ وَعِیْسَی بْنِ مَرْیَمَ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَکَانُوْا یَعْتَدُوْنَ، کَانُوْا لَایَتَنَاھَوْنَ عَنْ مُّنْکَرٍ فَعَلُوْہُ لَبِئْسَ مَاکَانُوْا یَفْعَلُوْنَ (سورہ مائدہ : ۷۸؍۷۹) ملعون ہوئے کافر بنی اسرائیل کے داؤد کی زبان پر اور عیسیٰ بن مریم کی، یہ اس لئے کہ وہ نافرمان تھے ، اور حد سے گزرگئے تھے ، آپس میں منع نہ کرتے تھے برے کام سے جووہ کررہے تھے ، کیا ہی براکام ہے جو کرتے تھے۔
مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی علیہ الرحمہ لکھتے ہیں کہ:
’’ یوں تو تمام کتب سماویہ میں کافروں پر لعنت کی گئی ہے ، لیکن بنی اسرائیل کے کافروں پر جب وہ عصیان وتمرد میں حد سے گزرگئے کہ نہ مجرم کسی طرح ارتکاب جرائم سے باز آتاتھا ، اور نہ غیر مجرم،مجرم کو روکتا تھا ، بلکہ سب شیر وشکر ہوکر بے تکلف ایک دوسرے کے ہم پیالہ وہم نوالہ بنے ہوئے تھے ، منکرات وفواحش کاارتکاب کرنے والوں پر کسی طرح کے انقباض ، تکدر اور ترشروئی کااظہار بھی نہ ہوتاتھا ، تب خدا نے حضرت داؤد ں اور حضرت مسیح ں کی زبان سے ان پر لعنت کی۔‘‘
امام احمد بن حنبل ، امام ترمذی ، امام ابوداؤد علیہم الرحمہ نے حضرت عبد اﷲ بن مسعود ص سے ایک روایت نقل کی ہے کہ رسول اﷲ ا نے ارشاد فرمایا کہ:
’’ بنی اسرائیل جب معاصی میں پڑے ، تو اوّلاً ان کے علماء نے منع کیا ، مگر وہ نہیں مانے ، لیکن اس کے باوجود وہ علماء ان کے ساتھ ان کی مجالس میں بیٹھتے رہے ، ان کے ساتھ کھاتے اور پیتے رہے ، پس اﷲ نے ایک دوسرے کے قلوب کو باہم ٹکرادیا ، اس کے بعد ان