نقل کیا ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ : یاتی علی الناس زمانٌ لأن تکون جیفۃ حمار أحب إلیھم من مومن یامرھم وینھاھم (احیاء العلوم، ج:۲، ص:۳۱۱) ایک ایسا وقت بھی آئے گا ، لوگ اس مومن کے مقابلے میں جو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتا ہو، مردار کو پسند کریں گے۔
کون یہ کہہ سکتا ہے کہ آج یہ بات صادق نہیں آرہی ہے ، اب منکرات پر نکیر تو درکنار ، ان کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے ، اگر کوئی اتفاق سے ٹوک دے ، تو ان لوگوں کی بھی پیشانیوں پر بل آجاتا ہے جو معروف اور منکر کو سمجھتے ہیں ، گویا جس کے جو جی میں آئے کرتا جائے ، تنظیم بناکر ، یا انفرادی طور پر بس اتنی شرط ہے کہ بظاہر وہ کام مثبت رنگ کا ہو ، خواہ قرآن وسنت سے میل نہ کھاتا ہو، خواہ وہ غیروں کی نقالی میں ہو،خواہ اس سے دینی احکام پر زد پڑتی ہو، لیکن اسے کوئی نہ ٹوکے ، کیونکہ فرض کرلیا گیا ہے کہ ٹوکنا تخریب ہے ، احتساب کی اجازت کوئی نہیں دیتا ، ہر شخص اور ہرجماعت اپنی رائے پر نازاں ہے۔
لیکن یہ کیا کوئی اچھا حال ہے؟ اس کا جواب قرآن کریم میں تلاش کیجئے ، اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : وَتَریٰ کَثِیْراً مِنْھُمْ یُسَارِعُوْنَ فِی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَأَکْلِھِمُ الْسُّحْتَ لَبِئْسَ مَاکَانُوْا یََعْمَلُوْنَ،لَوْلَایَنْھٰھُمُ الْرَّبَّانِیُّوْنَ وَالْاَحْبَارُعَنْ قَوْلِھِمُ الْاِثْمَ وَأَکْلِھِمُ الْسُّحْتَ لَبِئْسَ مَاکَانُوْا یَصْنَعُوْن( سورہ مائدہ: ۶۲؍۶۳) اور تم ان میں سے بہتوں کو دیکھو گے کہ گناہ اور ظلم اور حرام کھانے پر دوڑتے ہیں ، بہت برے کام ہیں جو کررہے ہیں ، کیوں نہیں منع کرتے ،ان کے درویش اور علماء گناہ کی بات کے کہنے سے اور حرام کھانے سے ، بہت ہی برے عمل ہیں جو کررہے ہیں ۔
مولانا شبیر احمد صاحب عثمانی نور اﷲ مرقدہٗ لکھتے ہیں کہ :
’’ جب خدا کسی قوم کو تباہ کرتا ہے ، تو اس کے عوام گناہوں اور نافرمانیوں میں غرق ہوجاتے ہیں ، اور اس کے خواص یعنی درویش اور علماء گونگے شیطان بن جاتے ہیں ، بنی اسرائیل کا حال یہی ہواکہ لوگ عموماً دنیوی لذات وشہوات میں منہمک ہوکر خدا تعالیٰ کی