بدتر کافر ہیں ، اور چونکہ ان کے نزدیک یہ ثابت شدہ حقیقت ہے کہ تمام علماء دیوبند اور ان سے تعلق رکھنے والے ، بلکہ ان سے پہلے کے بیشتر صوفیہ ومشائخ وحدت الوجود کے قائل ہیں ، اس لئے بیک حملہ یہ سب نصاریٰ سے بڑھ کر کافر ہیں ۔
اگر کوئی شخص اسلام اور مسلمانوں کی تاریخ پر نظر رکھتا ہو،تو ہمیں شمار کرکے بتائے کہ دنیا میں کتنے مسلمان اس تکفیری فتویٰ سے بچتے ہیں ،واﷲ! ان کی تکفیر کا دھواں تو رضاخانیت سے غلیظ اور وسیع ہوگیا ہے، اور لطف یہ ہے کہ عقل وفہم کے یہ مساکین سرے سے وحدت الوجود کے مسئلے کو سمجھتے ہی نہیں ، اور نہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ، یہ تو وہ لوگ ہیں جنھیں ظواہر الفاظ کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا ، قرآن میں الرحمن علی العرش استویٰ ، کا لفظ آگیا ،تو فرماتے ہیں کہ ھل یکون الاستواء إلا الجلوس (الدیوبندیۃ، ص: ۴۶ ۲ ) لیجئے ، استواء جلوس وقعود میں منحصر ہوگیا، یعنی اﷲ تعالیٰ عرش پر بیٹھے ، گویا وہ آدمیوں کی طرح بیٹھتے ہیں ۔ تاویل خواہ کتنی ہی ضروری ہو ، لیکن ان کے نزدیک جائز نہیں ، خواہ تاویل نہ کرنے کی وجہ سے اﷲ تعالیٰ کے لئے جسم ماننا پڑے ، اسے محدود تسلیم کرنا پڑے، جیسا کہ استواء کو جلوس کے معنی میں لینے سے یہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں ، لیکن یہ گوارا ہے مگر تاویل گوارا نہیں ، چنانچہ ان کے عقائد میں اس طرح کے خرافات بہت ہیں ، خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ، کہنا یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمان تو رضاخانیت ہی کے تکفیری حملوں سے نالاں تھے ،اب یہ اس سے بڑا فتنہ پیدا ہوا ہے۔
مصنف الدیوبندیہ نے ہر مسئلہ کے تحت ’’ رای کبار علماء السنۃ فی ہٰذہ المسألۃ ‘‘ کے تحت کچھ علماء کی رائیں نقل کی ہیں اور انھیں کو کبار علماء السنۃ قرار دے کر ان کے فتووں کو وحی الٰہی کے طور پر علماء دیوبند کے خلاف پیش کیا گیا ہے ، یہ کس قدوقامت کے لوگ ہیں ؟ اور ان کا مبلغ علم وفہم کیا ہے؟ اسے ایک مثال سے سمجھ لیجئے:
الدیوبندیہ میں کسی مسعود الدین عثمانی کی کتاب ’’ توحید خالص‘‘ کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ بعض دیوبندی کہتے ہیں کہ مدرسۂ دیوبند کی بنیاد نبی کریم انے رکھی ہے ،