سے ہوتا ہے ! لیکن اسی قصور پر وہ ملت اسلام سے خارج ہیں ، اور اس لئے ان پر کفر کا فتویٰ ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کو قبروں میں زندہ سمجھتے ہیں ، اور روضۂ اطہر نبوی اکی زیارت کے لئے سفر کرنے کو جائز بلکہ باعث اجر وثواب سمجھتے ہیں ، اور ان کا جرم یہ بھی ہے وہ دلائل الخیرات ( درود شریف کی ایک کتاب ) اور قصیدہ بردہ ( عربی میں ایک مشہور نعت نبوی) پڑھنے کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ ان کاایک گناہ یہ بھی ہے کہ ان کی دعاؤں اور توجہات سے مریضوں کو شفا مل جاتی ہے ، نیز ان کا سب سے بڑا گناہ بلکہ کفر یہ ہے کہ وہ تصوف کے قائل ، بلکہ اس پر عمل پیرا ہیں ، یہ بالکل ناقابل معافی گناہ ہے ، اور تصوف خواہ کہیں نظر آئے ، اس پر تکفیر کی تلوار چمک کر رہتی ہے ، غرض یہی بنیادیں ہیں جن کو بھیانک بنا بناکر پیش کیا گیا ہے ، اور مسلمانوں کی تکفیر کی گئی ہے۔
صوفیہ اور مشائخ کے اعلیٰ حلقوں میں ایک علمی مسئلہ ’’ وحدت الوجود‘‘ کا زیر بحث رہتا ہے، یہ ایک دقیق اور عمیق علمی مسئلہ ہے، اور جتنا دقیق ہے اتنا ہی مختلف فیہ بھی ہے اور نازک بھی ، جو لوگ اس کی حقیقت نہیں سمجھتے ، وہ اس کے موافق ہوں یا مخالف ، بہر حال اندھیرے میں ٹھوکریں کھاتے ہیں ، اس میں شبہ نہیں کہ جولوگ اس کے قائل ہوئے اور انھوں نے اس کی حقیقت کو نہیں سمجھا ،ان سے بہت سی گمراہیاں پھیلیں ، لیکن بے سوچے سمجھے جن لوگوں نے اس کی مخالفت کی وہ بھی کچھ کم بے راہ نہیں ہوئے، اور آج پوچھئے کہ کتنے لوگوں نے اس کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کی ہے، اور کتنے اس سے واقف ہیں ،اور کتنے لوگ اس کے عوارض ولوازم کو جانتے ہیں ، عام طور پر اہل علم بھی اور دوسرے تمام مسلمان بھی ’’وحدت الوجود‘‘ کے مسئلہ سے یکسو ہوکر اﷲ پر ایمان رکھتے ہیں ، یہ مسئلہ نہ مدارِ ایمان واسلام اور نہ اس کا علم عام ہے ، مگر ـ’’ الدیوبندیۃ‘‘ کے غیر مقلد مصنف نے ضروری سمجھا کہ اخص الخواص کے دائرہ کے اس غامض علمی مسئلہ کو عامۃ الناس اور اہل علم کے سر تھوپ کر ان کی تکفیر کرلے، وحدت الوجود کے بارے میں بقول مصنف ’’الدیوبندیۃ‘‘ کبار علماء سنت کا فتویٰ ہے یہ ہے کہ ھٰو لاء اکفر من النصاریٰ ( الدیوبندیۃ،ص:۴۷) یہ لوگ عیسائیوں سے