علماء حق کی اردو عبارتوں میں قطع وبرید کی اور جو جی چاہا ترجمہ کیا ، اور اسی ترجمہ کو پیش کرکے علماء حرمین سے کفر کا فتویٰ حاصل کیا ، ٹھیک اسی کی تقلید اس فتنہ کے بانیوں نے کی ۔ انھوں نے بھی علماء حق (علماء دیوبند) کے احوال واقوال اور عبارتوں کو جیسے تیسے پیش کیا ، اور سعودی علماء سے فتوے لکھوائے ، احمد رضا خان بریلوی نے جو مجموعہ مرتب کیا تھا اس کا نام ’’ حسام الحرمین‘‘ ہے ، اور ان بانیان فتنہ نے جو مجموعہ اکٹھا کیا ، وہ ’’ الدیوبندیۃ- تعریفھا وعقائدھا‘‘یہ فتاویٰ کیا ہیں ؟ تکفیر کی بے حجابانہ چلتی ہوئی تلواریں ہیں ، ان کی زد میں موجودہ فرقۂ غیر مقلدین کے علاوہ بیشتر اگلے پچھلے مسلمانوں کی گردنیں ہیں ، یہ اندھی اور بے شعور تلواریں ہیں جن کا عقل وفہم اور ’’ تاویل الاحادیث‘‘ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، ان تلواروں سے اور تواور خود غیر مقلدین کے صف اول کے ائمہ کی گردنیں کٹی پڑی دکھائی دیتی ہیں ، لیکن یہ فرقہ اب بھی ان کی مدح سرائی کرنے سے نہیں شرماتا ، مثلاً شیخ الکل فی الکل مولانا سیّد نذیر حسین دہلوی، نواب صدیق حسن خاں بھوپالی ، نواب وحید الزماں حیدرآبادی وغیرہ ، کیوں کہ جن بنیادوں پر علماء دیوبند کی تکفیر کی گئی ہے ، وہ بنیادیں ان حضرات کے یہاں بھی پائی جاتی ہیں ، دیکھئے: وقفۃ مع اللامذھبیۃ‘‘ مصنفہ مولانا ابوبکر غازی پوری ۔
(اس کے ضروری حصوں کی تلخیص’’ المآثر‘‘ج:۴، ش:۴ میں شائع ہوچکی ہے، اسے بھی ملاحظہ کیا جاسکتا ہے)
اس کتاب میں فرقۂ غیر مقلدین کے علاوہ تمام مسلمانوں بالخصوص علماء دیوبند اور ان سے تعلق رکھنے والوں کو ملت اسلام سے خارج قراردیا گیا ہے ، اس لئے نہیں کہ وہ کفریہ عقائد میں مبتلا ہیں ، بلکہ اس لئے کہ وہ اہل اﷲ اور مشائخ کے حق میں کرامات اور خوارق کے قائل ہیں ، اور اس سلسلے میں جو واقعات ان کی طرف منسوب ہیں ، انھیں سچ مانتے ہیں ، مثلاً یہ کہ ان کے وقت میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے برکت ہوتی ہے ، تھوڑے وقت میں ان سے زیادہ کام ہوجاتا ہے ، قلیل مدت میں طویل مسافت طے کرلیتے ہیں ، بغیر اسباب ظاہری کے ان سے بعض امور صادر ہوجایا کرتے ہیں ، اور بہت علوم جو عام انسانوں پر نہیں کھلتے منجانب اﷲ ان پر کھل جاتے ہیں ، اور یہ سب ان کے اختیار سے نہیں ہوتا ، محض اﷲ کے کرم وبخشش