تقسیم کرنے والی گاڑیاں آجاتی ہیں ، تو لوگ بے تحاشا دوڑتے ہیں جیسے اسی کے لئے آئے ہوں ، اﷲ تعالیٰ رحم فرمائے۔ یہ سب غفلت کے آثار ومظاہر ہیں ۔
آگ لگنے کے تکوینی اسباب جو بھی ہوں ، بعض لوگ ظاہری اعتبار سے سعودی حکومت کو اس کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں ، بلکہ اس کے سلسلے میں کچھ ناروا باتیں بھی کہہ جاتے ہیں ، لیکن یہ ایک ایسی غلط بات ہے جس کی تصدیق نہیں کی جاسکتی ۔ حقیقت یہ ہے کہ اتنے بڑے مجمع کے لئے جو ہرسال دوتین ماہ کے لئے پابندی کے ساتھ اکٹھا ہوتا ہے ، جس میں دنیا کے ہر ملک کے لوگ مختلف المزاج لوگ جمع ہوتے ہیں ، ان کی ضروریات اور ان کی سہولیات کا انتظام دوسرے لوگ شاید سوچ بھی نہیں سکتے جتنا سعودی گورنمنٹ انجام دیتی ہیں ، حج کو سہل اور پُر امن بنانے کے لئے اس حکومت کی کاوشیں قابل داد ہی نہیں قابل احترام وتعظیم ہیں ۔ منیٰ ہو یا جمرات، مزدلفہ ہو یا عرفات، مسجد حرام ہو یا مسجد نبوی ، انتظامات دیکھ کر انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے ، یہ انتظام نہیں ، معجزہ ہے ، بے شک اس انتظام میں اﷲ تعالیٰ کی خاص تائید اور نصرت شامل ہے۔ ورنہ ودسرے ملکوں میں اس سے بہت چھوٹے چھوٹے مجمعوں میں ہزاروں ناگفتنی باتیں ہوجاتی ہیں ، اس انتظام کے تحت ہر شخص باطمینان حج کے مناسک ادا کرتا ہے ، اور جہاں دشواری محسوس ہوتی ہے وہ انتظام کی کمی نہیں بلکہ مختلف ملکوں سے آئے ہوئے لوگوں کی ناتربیت یافتگی، بے ترتیبی اور کشمکش کی وجہ سے ہوتی ہے۔
اور جہاں تک اندازہ ہے ، سعودی حکومت آگ کے اس حادثہ کے بعد ازسر نو اس سے تحفظ کا کوئی انتظا م کرے گی، لیکن کمال انتظام اور انتہائی مستعدی کا عالم دیکھئے کہ منیٰ میں پونے بارہ بجے دن میں آگ لگی ، آناً فاناً ہزاروں خیمے اس کی زد میں آگئے ، اس اطلاع کے ملتے ہیں حکومت کی پوری مشنری حرکت میں آگئی ، اور اتنی بڑی آگ کو صرف تین چار گھنٹوں میں بجھادیاگیا۔ ہم اور ملکوں کی بات نہیں کرتے ، خود ہمارا ملک ہوتا تو شاید اتنی دیر کے بعد ’’ہنوز روز اول‘‘ ہوتا۔
۱۰؍ تاریخ کو جب مزدلفہ سے حاجی منیٰ کی طرف لوٹ رہے تھے تو سب کے دل