میں یہ خدشہ تھا کہ خیمے تو سب جل گئے، اب کھلے میدان میں دھوپ میں رہنا ہوگا، لوگ آپس میں پروگرام بنارہے تھے کہ اس طرح چادر تان لی جائے گی ، فلاں پُل کے نیچے رہ لیں گے وغیرہ، مگر قربان جائیے رحمتِ خداوندی کے ، دعا دیجئے حکومت کے انتظام کو، کہ منیٰ میں داخل ہونے کے بعد نگاہیں چکراتی رہ گئیں کہ کہاں آگ لگی تھی ، جلے ہوئے خیموں کی راکھ کہاں ہے ؟ وہ لکڑیاں اور وہ بانس کہاں ہیں جن کا کچھ حصہ آگ نے کھاکر چھوڑدیا ہے ۔ اﷲاکبر ! کچھ تو نظر نہیں آیا ، ہر جگہ خیمے حسب سابق نصب تھے ، جلی ہوئی راکھ بھی نہیں مل رہی تھی ، صرف دو ایک جگہ کچھ جلے ہوئے پنکھے، کچھ لکڑیاں دکھائی دیں ، ہر حاجی کاخیمہ موجود تھا اور منیٰ کا میدان حسب معمول خیموں کا شہر بناہوا تھا ، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ، کیا یہ انتظام قدرتِ حق کا معجزہ نہیں ہے؟
اس حقیر بندہ کی رائے یہ ہے کہ سعودی حکومت اور معلمین کو کوسنے اور طعنہ دینے کے بجائے ہر ملک کے لوگ اپنے لوگوں کی تربیت کا انتظام کریں ، مناسک حج سکھائیں ، حرم کا احترام سکھائیں ، دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ جہل ونادانی کی وجہ سے بے شمار غلطیاں ہوتی ہیں ، صرف غلطیاں ہی نہیں معصیتوں اور گناہوں سے بھی پاک نہیں ہوتا ، یہ تو بہت آسان ہے کہ معلم اور حکومت کے سر الزام تھوپ کر خود کو بری کرلیا جائے ، لیکن یہ حقیقت واقعہ سے صرفِ نظر کرنا ہے ، کتنی پریشانیاں اور بدحواسیاں خود حجاج کی بے ترتیبی کی وجہ سے ظاہر ہوتی ہیں ،موقع ہواتو بعض اہم چیزوں کو آئندہ شمارہ میں ذکر کیا جائے گا۔
بہر حال حکومت کا رویہ اس سلسلے میں بہت ہی عمدہ اور قابل ستائش تھا ، صفحات میں گنجائش نہیں ہے ورنہ انتظامات کی کچھ تفصیل ذکر کی جاتی ، تو ناواقفوں کی آنکھیں کھل جاتیں اور وہ لوگ بھی شاید سوچنے پر مجبور ہوتے جن کی نگاہ صرف معائب اور خرابیوں ہی پر پڑتی ہیں ، اور انھیں غلط اندیشی سے حکومت کے سر منڈھ دیتے ہیں ۔
(’’ مجلہ المآثر‘‘شوال تا ذی الحجہ ۱۴۱۷ھ ؍ اپریل تا جون ۱۹۹۷ء)
٭٭٭٭٭