مشیّت سے ہوتا ہے ، اور مصائب کفارۂ ذنوب بن کر آتے ہیں ، یا اس سے درجات بلند ہوتے ہیں ، یا اس سے صدق دل کے ساتھ اﷲ کی طرف متوجہ کرنا منظور ہوتا ہے۔
حج کا اجتماع ہوتا تو محض اﷲ کی عبادت کے لئے اورعمومی طور پر لوگ اﷲ کی بندگی میں لگے ہوئے ہوتے ہیں ، لیکن یہ بھی واقعہ ہے کہ حاجیوں کے اس جم غفیر میں غفلت وسرمستی کے مظاہر بھی بہت ہوتے ہیں ۔ ساری دنیا کے لوگ مجتمع ہوتے ہیں ، مسائل سے ناواقفی عام ہوتی ہے، پھر عموماً اس کی پرواہ بھی نہیں کی جاتی، نہ مسائل سیکھنے کا اہتمام ہوتا ہے ، مکہ مکرمہ کے بازار مختلف قسم کے دلفریب سامانوں سے پٹے ہوتے ہیں ، ایک بڑا مجمع ہروقت اسی اہتمام میں رہتا ہے کہ کیا کیا خریدیں ۔ اتنے متبرک مقامات اور اتنے مقدس اوقات میں اتنی زیادہ غفلت کیا نتائج پیدا کرے گی؟ آگ لگی ، ظاہری طور پر خیمے جلے ، سامان جلے ، کچھ لوگ بھی جلے ، مگر غفلت کی خس وخاشاک بھی جل گئی ، آگ لگنے کے بعد سے پورے ایام حج میں حاجیوں پراِنابت ،شکستگی ، رجوع الی اﷲ کی کیفیت ، دعا میں گریہ وزاری اور اﷲ تعالیٰ سے استعانت اور ایک دوسرے کی ہمدردی وغمخواری کا جو منظر سامنے آیا، عام حالات میں اس کی توقع ہرگز نہیں ہوسکتی تھی ، حج کی جو روح ہے یعنی سب سے کٹ کر اﷲ کی طرف متوجہ ہونا ، ان کے حضور گریۂ وزاری کرنا، توبہ واستغفار میں مشغول ہونا، یہ روح آگ کی اس شدید لہر نے تمام حاجیوں کے دل میں پیدا کردی۔
تاہم قلوب پر غفلت کا اتنا شدید تسلط ہے کہ عرفات ومنیٰ میں کچھ ایسے لوگ بھی نظر آتے رہے ، جنھیں بجز کھانے پینے اور لایعنی کاموں کے جیسے اور کچھ مشغلہ نہیں رہتا ۔ عرفات میں زوال آفتاب سے وقوف کا وقت شروع ہوتا ہے ، حج کا سب سے بیش قیمت وقت یہی ہے ، اور اس کی مدت بھی کچھ زیادہ طویل نہیں ہے، عرفات کا قیام محض غروب آفتاب تک ہوتا ہے ، گوکہ وقت صبح صادق تک ہے ، لیکن غروب آفتاب کے بعد نکل جانے کا حکم ہے ، اتنے قلیل لمحات کو عبادت اور یاد الٰہی میں گزار دینا کچھ مشکل نہیں ، لیکن دیکھا جاتا ہے کہ اس قلیل وقت کو بھی بہت سے لوگ کھانے پینے اور سونے کی نذر کردیتے ہیں ۔ دودھ اور چھاچھ وغیرہ