دوسرے یہ کہ جب کبھی آگ لگی ہے ، ہلکی پھلکی لگی ہے ، جس میں اگر خیمے جلے ہیں توسیکڑوں کی تعداد میں ،اور اس پر فوراً قابو پالیا گیا ۔ معمولی طور پر کچھ لوگ زخمی ہوجاتے تھے ، لیکن یہ آگ بہت ہمہ گیر تھی۔ آگ کہاں سے لگی؟ اور کیسے لگی؟ اس کو متعین طور سے کوئی نہیں بتا پا تا، بس یہ ہے کہ آگ لگی اور ہوا تیز ہوئی ، اس سے آگ دوسرے خیموں تک لپکتی چلی گئی۔ خیموں کے مختلف حلقے ہوتے ہیں ، ایک حلقے میں سیکڑوں خیمے ہوتے ہیں ، ہر حلقے کے ایک کنارے پر شیڈوں سے گھرا ہوا، باورچی خانہ ہوتے ہیں ، اس میں پکانے کے لئے اسٹوپ اور گیس سلنڈر اور چولہے وغیرہ ہوتے ہیں ۔ آگ جب پھیلی ہے تو گیس سلنڈر گرم ہوہوکر پھٹنے لگے ، ان کے پھٹنے سے بم جیسی آواز ہوتی تھی ، اور اس کے شرارے فضا میں بلند ہوکر دور دور گرتے تھے ، ہوا اتنی تیز اور پھر شراروں کی ہلاکت خیزی ہے ، دوہری قیامت کا منظر تھا ، اب کی خیمے سینکڑوں کی تعداد میں نہیں ہزاروں کی گنتی میں جلے ، اور وہ بھی صرف چند ہزار نہیں ، بلکہ اندازہ یہ ہے کہ تقریباً ستّر ہزار خیمے جلے ، اتنی بڑی آگ سے شاید اب تک کی تاریخ خالی ہے ۔
جتنی زبردست یہ آگ تھی ، حقیقت یہ ہے کہ اس میں جانی نقصان بہت ہونا چاہئے تھا ، لیکن آگ کی ہولناکی کے تناسب سے واقعہ یہ ہے کہ جانی نقصان کچھ بھی نہیں ہوا، ہر خیمے میں دس بارہ آدمی ہوتے ہیں ، سات آٹھ لاکھ آبادی کے خیمے جلے اور جانی نقصان کتنا ہوا؟ ہزار یا چند ہزار ! بس اﷲ تعالیٰ کی خصوصی رحمت تھی ، جو لوگ اس میں شہید ہوگئے ، اﷲ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے ۔ وہ لوگ اپنی قسمت پر ناز اور دوسرے لوگ رشک اس وقت کریں گے جب وہ لبیک پکارتے ہوئے میدانِ قیامت میں اٹھیں گے ، اور جو لوگ زخمی ہوئے اور انھوں نے صبر کیا ، ان کے اجر وثواب کا کوئی اندازہ ہی نہیں ۔ محفوظ رہ جانے والوں نے گویا دوسری زندگی پائی۔
لوگ آگ لگنے کا سبب تلاش کرتے ہیں ، یعنی یہ کہ آگ لگنے کی ابتداء کیونکر ہوئی؟ لیکن اس سوال کا متعین جواب مشکل ہے ، کیونکہ آگ لگنے اور اس کے پھیلنے میں اتنی تیزی تھی کہ اس کے آغاز کا پتہ لگانا ممکن نہیں ۔ ایک مومن کا یقین ہے کہ جو کچھ ہوتا ہے اﷲ کی