فرزند عزیز! عافاک اﷲ وأعاذک من الشرور والبلایا
السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ
رات کے بارہ بج رہے ہیں ، میں سونے کی کوشش کررہاتھا مگر تمہارا صدمہ یاد آتا ہے اور نیند آنکھوں سے اُڑ گئی ہے ، اپنے آپ کو تسلی دے رہاہوں ، تمہارے لئے دعائیں کررہاہوں مگر کلیجہ ہے کہ چھلنی ہوا جارہا ہے ، بڑی دیر سے کشمکش میں ہوں ، تمہارے دل کا ، دل کے حال کا خیال اس قدر بے چین کئے ہوئے ہے کہ بے اختیار اٹھ کر یہ سطریں لکھ رہاہوں ، اﷲ کرے تمہارے لئے یہ حروف باعث تسکین وتسلی ہوں ۔
میرے بیٹے! صدمہ بڑا ہے مگر یہ سوچو کہ جس پاک پروردگار نے یہ امانت تمہیں سپرد کی تھی ، اب اسی نے یہ امانت جیسی سونپی تھی ویسی ہی واپس لے لی ، اس پر کسی طرح کے گناہ کا داغ دھبہ نہیں لگا، اب یہ تمہاری امانت ہے جو سب سے بڑے امانت دار کے پاس پہونچ گئی ہے ، وہ اس امانت کو سنبھال کر رکھیں گے ، اس کی پرورش کریں گے اور ایسے وقت میں تمہارے حوالے کریں گے جب سب سے زیادہ ضرورت کا وقت ہوگا، اس وقت یہ امانت تمہیں اس درجہ کام آئے گی جس کی کوئی حد وانتہا نہیں ، تمہاری تین امانتیں وہاں محفوظ ہیں ، حافظ مسعود صاحب کہہ رہے تھے کہ یہ تینوں بحکم حدیث نبوی ماں اور باپ کو سیدھے جنت میں پہونچا کر رہیں گی ، آج کا صدمہ بہت بڑا صدمہ، کل کی عظیم سعادت ثابت ہوگی۔ ان شاء اﷲ
میرے بیٹے ! ہم سب کے آقا ومولیٰ رسول کریم ا جوسرچشمۂ محبت ورحمت ہیں ، بڑھاپے میں انھیں ایک بیٹا ملا ، ۱۷؍ ماہ کا ہوا،اور حق تعالیٰ نے واپس لے لیا ،بڑھاپے کی اولاد تھی ، صدمہ ہونا تھا ہوا۔ آنکھوں سے آنسو جاری ہوئے ، دل زخمی ہوا ، لیکن فرماتے ہیں : لانقول إلا بما یرضیٰ ربنا وإنا بفراقک یا ابراہیم لمحزونون، صدمے کاانکار نہیں ، مگر حق تعالیٰ کی مشیّت پر راضی رہنا حقِ بندگی ہے۔
خداکی مہربانی تو دیکھو! بندہ اپنے بیٹے کی ، اپنے ثمرۂ قلب کی اور اپنے جگر گوشے کی