تھا، اب یہ زخم شدید ہوگیا ، بڑی مشکل سے محمد عابد سلّمہ کو چند کلمات تعزیت اور صبر وتسلی کے کہے ، ناظم مدرسہ مولانا انتخاب عالم قاسمی سلّمہ نے تجہیز وتکفین نیز مولوی محمد عابد سلّمہ کے صبر وتسلی کا اہتمام کیا ۔ہم لوگ دور تھے ، حق تعالیٰ سے دعائیں کرتے رہے ، برخوردار محمد عرفات سلّمہ نے یہ پوری رات مسجد حرام میں دعا ومناجات میں گزاری۔
حج کے ارکان کی ادائیگی اور تکمیل کے بعدایک اور مریض مل گئے ، ان کے اصرار پر یہ طے ہوا کہ ہم لوگ وقت سے پہلے وطن کے لئے روانہ ہوجائیں ، میری واپسی کی تاریخ ۳۰؍ نومبر متعین تھی ، مگر دوسرا ٹکٹ ۱۷؍ نومبرکا لے لیا گیا ، میں اور میرے دونوں برخوردار ۱۷؍ نومبر کی فلائٹ سے دلی آگئے۔ ۱۸؍ کو بنارس پہونچے ، بنارس میں ہمارے میزبان حاجی منظور احمد صاحب نے میری علالت کی جوکیفیت دیکھی تو مشورہ دیا کہ یہیں سے پہلے جون پور چلاجائے ، حکیم صاحب کو دکھایا جائے ،پھر شیخوپور واپسی ہو ، چنانچہ ہمارا قافلہ اولاً جونپور گیا ، حکیم صاحب نے کرم کیا ، وہ ساتھ میں شیخوپور آئے ، دوائیں تجویز کیں ، ان کا استعمال شروع ہوا۔
یہ جمعہ کا دن تھا ، سنیچر اور اتوار کا دن کافی کمزوری اور بیماری میں گذرا، اتوار کا دن گزارکر رات جو آئی تو آنکھوں سے نیند غائب تھی ، ڈیڑھ بجے کے بعد کچھ آنکھ لگی۔
۲۴؍ ذوالحجہ ۲۰؍ نومبر سوموار کوعلی الصباح آنکھ کھلی ، وضو کرنے بیٹھا تو زبردست متلی شروع ہوگئی ، بہت دیر تک خودکو سنبھالنے کی کوشش کرتا رہا ، طبیعت بالکل نڈھال ہوگئی ، بڑی دیر کے بعد سکون ہوا، تو مصلیٰ بچھاکر نماز کے لئے ہاتھ اٹھارہا تھا کہ کمرے میں میرے دو بیٹے مولوی حافظ محمد عارف اور مولوی محمدحافظ محمد راشد سلہما داخل ہوئے ، میں چونکا کہ اتنے سویرے یہ دونوں بھائی کہاں ؟ عارف نے بھرائی ہوئی آواز میں بتایا کہ ولی الحق سالم کا انتقال ہوگیا، سالم عزیزم محمد راشد سلّمہ کابیٹا تھا جو ابھی رمضان شریف میں پیدا ہوا تھا ۔ اس ناگہانی اطلاع سے خرمن صبر وقرار پر بجلی سی گری اور میں نماز میں مشغول ہوگیا ۔ کوئی بیماری تھی ؟ کوئی تکلیف تھی؟ کچھ نہ تھا ، بس مشیتِ الٰہی تھی ، عمر پوری ہوچکی تھی ، جہاں سے آیا اور جیسا