مدینہ شریف میں سفر کی تکان نے دبایا تو بخار بدن پر چھا گیا ، اپریل کے اواخر میں میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی ۔ جونپور کے ماہر اور بزرگ طبیب حکیم رئیس عالم صاحب کو دکھایا ، تو انھوں نے میعادی بخار تشخیص کیا ،اور یہ کہ یہ بخار بہت عرصہ سے ہے ، اس وقت غذا بالکل بند ہوگئی ، کھانا دیکھتے ہی طبیعت بگڑنے لگتی اور متلی کی سی کیفیت چھاجاتی ، عرصہ سے صرف چائے میں تھوڑی سی روٹی توڑ کر کھاپاتا تھا ، حکیم صاحب نے متواتر تین ماہ تک علاج کیا ، اﷲ نے شفا بخشی ، کھانا کھانے لگا، رمضان بخیر گزرا ۔ حج کے سفر میں تکان ہوئی تو بخار پلٹ پڑا اور کھانے کی سابقہ کیفیت لوٹ آئی ، غذا بند ہوگئی ، کچھ انگریزی دوائیں استعمال میں رہیں ، مگر ضعف واضمحلال بڑھتا ہی رہا ، حج سے پہلے نوبت یہ تھی کہ بخار ہمہ دم رہتا، غذا ساقط ہوگئی ، طاقت نام کی کوئی چیز بدن میں نہ رہی ، چلنا پھرنا دوبھر ہوگیا ، حرم کی حاضری سے محرومی طویل ہوگئی ۔ میرے بچے اور رفقاء پریشان تھے ، ایک ویل چیر کاانتظام کیاگیا ، منیٰ کی حاضری میں کوئی اسے اٹھالے گیا ، مفتی عبدا لرحمن صاحب غازی پوری سلّمہ نے دوسری ویل چیرکاانتظام کیا ، عرفات سے مزدلفہ، مزدلفہ سے منیٰ کی حاضری ویل چیر پر ہوئی ، مفتی صاحب نے راحت رسانی اور خدمت کا حق اس طرح ادا کیا کہ میں شرمندہ ہوہوکر رہا ، اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے دنیا وآخرت کی تمام راحتیں اور خوشیاں انھیں عطا فرمائیں ۔
۱۰؍ ذی الحجہ کو شام کے وقت منیٰ میں میری طبیعت زیادہ خراب ہوگئی ، بخار اور الٹی کی شکایت بڑھ گئی ، مجبوراً میں اپنی قیام گاہ عزیزیہ پر آگیااور پھر مسلسل طبیعت خراب ہی رہی اﷲ نے رمی اور طواف زیارت کا مرحلہ محض اپنے فضل وکرم سے آسان فرمادیا۔
حج کے معاًبعد گھر سے اطلاع ملی کہ برخوردار مولوی حافظ محمد عابد سلّمہ کا دوسرا بیٹا محمد ساجد جس کی عمر سال بھر ہے ، بہت بیمار ہوگیا ، اسے اعظم گڈھ بچوں کے ایک معالج کے یہاں ہسپتال میں بھیجوایا، معلوم ہوا کہ نمونیہ بہت شدید ہے ،کافی توجہ اور اہتمام سے علاج ہوا، پانچ چھ روز میں اﷲ نے صحت عطا فرمائی ، ۱۵؍ نومبر کو لے کر گھر آگئے ۔ شام کے وقت گھر سے فون پہونچا کہ محمد ساجد کا انتقال ہوگیا ، طبیعت دھک سے ہوکر رہ گئی ، دل تو پہلے ہی زخمی