پرانی رسم رہی ہے کہ وہ اﷲ ورسول کے ماننے والوں پر چھینٹے اڑاتے ہیں ، ان کا حال یہ ہے کہ : وَاِذَا قِیْلَ لَھُمْ آمِنُوْا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوْا أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَھَائُ (البقرۃ:۱۳)جب ان سے کہاجاتا ہے کہ جس طرح یہ لوگ ایمان لاچکے ہیں ، تم بھی ایمان لاؤ، تو یہ دنیا پرست کہتے ہیں کہ کیا ہم اس طرح ایمان لائیں جیسے بیوقوف لوگ ایمان لائے ہیں ۔ جس کی نظر دنیا سے اوپر اٹھ کر کر آخرت پر جم چکی ہے ، اسے یہ دنیا دار بیوقوف کہتے ہیں ۔
اس طرح کے لوگ چاہتے تو یہ ہیں کہ یہ مدارس فنا ہوجائیں اور جس چیز کو یہ مدارس زندہ رکھنا چاہتے ہیں وہ موت کے گھاٹ اتر جائے ، مگر مسلمانوں کو دین ومذہب سے جو مضبوط اور گہرا تعلق ہے اسے دیکھ کریہ ڈرتے ہیں کہ ان کا یہ ارادہ پورا نہ ہوگا تو وہ انھیں ایسی راہ پر لگانا چاہتے ہیں اور انھیں ایسا نصاب تعلیم قبول کرنے کی تلقین کرتے ہیں جو بظاہر خوش نما اور دلآویز ہے ، لیکن اس پر چلنے اور اسے قبول کرنے سے مدارس کا ڈھانچہ تو رہ جائے مگر اندر سے اس کی روح اور طاقت فنا ہوجائے ، جیسے انگریزوں کے نظام ونصاب تعلیم نے مسلمانوں کا نام تو باقی رکھا ، مگر اندر سے بہتوں کی اسلامی روح کو نکال باہر کردیا ہے ۔ اکبرؔ مرحوم نے کس قدر سچی بات کہی ہے ؎
یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی
اور کچھ ایسے لوگ بھی دنیا کی ملمع کاری کے فریب میں آگئے ، جو دل سے مخلص ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کو تازہ دم دیکھنا چاہتے ہیں ، لیکن دنیاداری کے غوغا سے وہ متاثر ہوئے ، اور انھوں نے اپنی سادگی یاکم علمی کی وجہ سے اسی راہ کو اختیار کرنا پسند کیا جو بظاہر خوشنما مگر حقیقت میں تباہ کن ہے، دنیادار حکومتوں نے شکار کاایک جال بچھا یا، اور اس میں معاشی سہولیات کے پُرفریب دانے ڈال دئے ، اور ان دانوں کی افادیت اس طرح ظاہر کی، کہ شکار کاجال نگاہوں سے اوجھل ہوگیا ، معاشی آسانیوں کی لالچ نے جال کو بھی اوجھل کیا اور