صورت کو محفوظ رکھا ، اور حق یہ ہے کہ دین کی ہمہ جہتی حفاظت میں ان کااہم کردار رہا ہے۔ چاہنے والوں نے بہت چاہا کہ مدارس کو ان کی اس ڈگر سے ہٹادیں جس پر چلتے رہنے کے لئے ان کا وجود وقیام ہوا تھا ، کچھ ایسے لوگوں نے بھی چاہا جن کی نگاہوں میں یہ مدارس خار بن کر کھٹکتے ہیں ، وہ اسے دُنیوی ترقی اور عیش وعشرت یایوں کہئے کہ نفسانی خواہشوں کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں ، انھوں نے چاہا کہ اسے فنا کردیں ، ایسا ان کے بس میں نہیں ہوا تو انھوں نے دوسرا داؤ کھیلا کہ ان مدارس کے نصاب میں ، ان کے طریقۂ کار میں ایسی چیزیں داخل کردیں جو بظاہر دیکھنے میں خوشنما ہوں ، لیکن انجام یہ ہوگا کہ یہ دین کی ڈگر سے منحرف ہوکر محض دنیا کی راہ اختیار کرلیں گے ، یہ بات بڑی وضاحت سے سمجھ لینی چاہئے کہ دنیا طلبی ، جاہ پرستی اور دولت وثروت کی دیوانہ وار عشق ووارفتگی کے سمندر میں یہ مدارس دین وملت کے محفوظ جزیرے ہیں جہاں مذہب اسلام کے سرمایہ کی حفاظت کی جاتی ہے ، اگر ان میں وہ چیزیں داخل کردی گئیں ، یاا نھیں داخل ہونے کا راستہ دے دیا گیا جن کو دین سے مناسبت کم اور دنیا سے مناسبت زیادہ ہے ، تو دیر نہیں گزرے گی کہ دین وملت کے جزیرے دنیا پرستی کے سمندر میں غرقاب ہوجائیں گے ، ہم دیکھتے ہیں کہ جن مدارس نے دنیا کی ان ہواؤں کو اپنے حصار میں آنے کی اجازت دی ،وہاں دین مغلوب ہوچکا ہے ،اور دنیا پرستی غالب ہوگئی ہے۔ والعاقل تکفیہ الاشارۃ
مدارس اسلامیہ کے لئے وہی ڈگر ضروری ہے جو دار العلوم دیوبند کے لئے اس کے مقدس اور زیرک بانیوں نے متعین کی ہے ، جہاں قال اﷲ وقال الرسول کی صدائیں گونجتی ہوں اور جہاں رات کے آخری حصے میں ذکر الٰہی کے زمزمے دلنواز ہوتے ہوں ، جہاں دنیا طلبی پر دینداری کی حکومت ہو، جہاں اﷲ ورسول کی وفاداری میں دنیا کے ہر تقاضے کو ٹھکرادیا گیا ہو، جس میں رہنے بسنے والے دورحاضر کے اپٹوڈیٹ نہ ہوں ، بلکہ قرون اولیٰ کے نمونے اور یادگار یں ہوں ، دور حاضر چاہے جتنا ان پر ہنسے ، انھیں بنیاد پرست سمجھے ، انھیں ارذل اور بادی الرای ( چھوٹا اور بیوقوف) قراردے ، انھیں کوئی پرواہ نہ ہو ، کیونکہ دنیا پرستوں کی یہ