حصے میں مذہب اسلام کے قدم جمے تھے ، جس کے مرکز میں بیٹھ کر خواجہ نظام الدین محبوب الٰہی علیہ الرحمہ نے یہاں کے ہرہر چپے کو اپنے خلفاء ومتوسلین کو بھیج کر دیانت وروحانیت کی دولت سے مالال فرمایاتھا ، جس کے ایک گوشے میں رہ کر مجدد الف ثانی حضرت امام شیخ احمد سرہندی علیہ الرحمہ نے دین اسلام کی تعلیمات اور اس کی روحانیت کو اس طاقت وقوت سے پھیلایا کہ خانقاہوں ، زاویوں اور مدارس سے آگے بڑھ کر مغل بادشاہوں کے بام ودر اس کے نور سے روشن اور اس کی تاثیر سے سرشار ہوگئے ، جس ملک کی راجدھانی میں بیٹھ کر حضرت شاہ ولی اﷲ صاحب علیہ الرحمہ نے علم حدیث اور سلوک وروحانیت کا وہ مرکز قائم کیا ، جہاں سے علم وعمل کی ایک عدیم المثال کہکشاں تیار ہوئی ، جس کی روشنی سے سارا ہندوستان جگمگا اٹھا ، جس سرزمین کے ایک خطے سے اٹھ کر امیر المومنین وامام المجاہدین سیّدنا سیّد احمد شہید قدس سرہ نے اپنے بزرگ خلفاء ورفقاء کے ساتھ اصلاح وتجدید اور جہاد فی سبیل اﷲ کا وہ نعرہ بلند کیا کہ اس کی گونج آج تک مسلمانوں کے قلوب کو گرمارہی ہے ، حق تعالیٰ کو منظور نہ ہوا کہ اس ملک سے دین اسلام کے قدم اکھڑیں ، اﷲ نے احسان فرمایا ، اس کی حکمت کا تقاضا ہوا کہ یہاں دین اسلام کے قدم جمے رہیں اور اس روشنی کی تب وتاب باقی رہے۔
اﷲ نے اصحاب توفیق کو الہام فرمایا ، غیبی قوتوں نے ظہور فرمایا ، اہل اﷲ کے سینے سے نکلی ہوئی آہوں نے بارگاہِ الٰہی میں قبولیت پائی ،اور یہاں مدارس اسلامیہ کے قیام کی طرح ڈالی گئی ۔ اول سرزمین دیوبند اس سعادتِ کبریٰ اور نعمتِ عظمیٰ سے سرفراز ہوئی ، حق تعالیٰ نے نظر عنایت فرمائی ، زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ہندوستان کے بہت علاقوں میں مدارس اسلامیہ کی بنیادیں قائم ہوتی چلی گئیں ۔ یہ مدارس ہندوستان میں دین اسلام کی بقا اور تحفظ کے مضبوط قلعے اور اہل اسلام کے لئے نعمت عظمیٰ اور غنیمت کبریٰ ہیں ، آج جہاں کہیں اس ملک میں حق وہدایت کی شمع روشن ہے انھیں مدارس کا فیض ہے۔
اسلامیان ہندبلکہ مسلمانان عالم اس نعمت عظمیٰ پر اﷲ کا جتنا شکر ادا کریں کم ہے ، ان مدارس نے علوم دینیہ کو زندہ رکھا ، اخلاص وللٰہیت کو باقی رکھا ، کردار وعمل کی صحیح شکل و