جگہ عام گھروں جیسی نہیں ہے کہ جس طرح چاہیں آئیں جائیں ، یہ تفریح گاہ نہیں ،عبادت گاہ ہیں ، ان میں آدمی داخل ہو تو باوضو داخل ہو ، داخل ہوتے ہی دو رکعت نماز ادا کرے تاکہ مسجد کی وضع کا حق ادا ہوجائے ، مسجدمیں نجاست نہ لیجائی جائے، خود نجس آدمی نہ جائے ، دنیا کی بات نہ کی جائے ، خرید وفروخت کاکاروبار نہ کیا جائے ، یہ سب آداب مسجد کے خلاف ہے۔
اسی قیاس پر ہراس چیز کا لحاظ کرلیا جائے جس کی نسبت اﷲ اور اس کے رسول اور اس کے دین کے ساتھ وابستہ ہے ، دینداری کی روح یہ ہے کہ ان میں سے کسی کی بے حرمتی نہ ہو۔
جب تک ان عبادات وشعائر کو آدمی اس نظر سے دیکھے گا کہ حق تعالیٰ وتقدس کی بارگاہ عظیم سے خصوصی تعلق رکھنے والی یہ چیزیں ہیں ، ان کے خصوصی ادب واحترام کی پوری کوشش کرے گا ،اور اگر ان کو محض رسوم کا درجہ دیدے گا، تو الٹے سیدھے ، اونے پونے جس طرح ادا ہوجائے کافی سمجھے گا، چنانچہ دیکھا جاتا ہے کہ بعض لوگ بس نماز ادا کرلیتے ہیں ، نہ تہذیب وشائستگی کا لحاظ رکھتے ہیں ، نہ شرم وحیا کا پاس ولحاظ رکھتے ، ننگے سر ہیں تو اسی حالت میں نماز میں داخل ہوجاتے ہیں ، لباس ایسا پہنیں کہ دیکھ کر شرم وحیا کی آنکھیں نیچے ہوجائیں ، نہ کھڑے ہونے کا سلیقہ نہ رکوع وسجود کا ڈھنگ اور نہ اٹھنے بیٹھنے کی ہیئت درست ، بس ٹھونگیں مارلیں اور خوش کہ نماز ادا کرلی۔
ان ظاہری آداب کو معمولی ہرگز نہ سمجھیں ، ظاہر درست ہوگا تو باطن کی درستگی آسان ہوگی۔
غرض دین کے ہر حکم کے ظاہر کو درست رکھنا، شریعت میں بڑی اہمیت رکھتا ہے ، اس سے غفلت کسی طرح روا نہیں ۔ علماء وفقہاء نے ظاہری احکام وآداب کو تفصیل سے بیان کیا ہے ، نوجوانوں کو اس کا خاص طور سے دھیان دینا چاہئے، ورنہ شروع کی عادت کا بگاڑ ، بعدمیں اس کا اصلاح پذیر ہونا مشکل ہے۔ (جولائی ۲۰۱۱ء)
٭٭٭٭٭