غلط کار لوگ ہر جگہ داخل ہوجاتے ہیں اور غلطیاں ہر جگہ رہ جاتی ہیں ، ان غلطیوں پر روک ٹوک کرنا عین تقاضائے ایمان ہے ، اور غلط کاروں کو متنبہ کردینا ، ان کی نشاندہی کرنا بالکل ضروری ہے ، لیکن سرے سے تصوف وسلوک کاانکار کردینا، یہ کیا ہے ؟ یہ تو مسلمانوں کو ان تابناک ماضی سے کاٹ کر رکھ دینا ہے ، معتمد علماء ومشائخ سے بدگمان کردینا ہے ، آزادروی کی نئی راہ کھول دینی ہے جس پر چل کر آدمی اباحیت اور الحاد ودہریت کے گڈھے میں گرجائے ، چنانچہ اس کا تجربہ ہے۔
کاش یہ لوگ بزرگوں کی کھال نہ نوچتے، بلکہ اپنی کھال پر نظر رکھتے کہ کہاں کہاں داغ دھبہ لگا ہوا ہے ، اسے صاف کرتے، اپنا احتساب کرتے تو بہتر ہوتا۔
ہندوستان ہی میں نہیں ، دنیا کے ہر ملک اور ہر خطے میں صوفیہ اور مشائخ کی روشن خدمات ہیں ، انھوں نے جان پر کھیل کر دین کی خدمت کا فریضہ انجام دیا ہے ، ان کے ذریعے سے جس قدر اسلام کی اشاعت ہوئی ہے ، کوئی دوسرا ان کی ہمسری نہیں کرسکتا۔ بھی چند سال پہلے جب روس کی حکومت پارہ پارہ ہوئی تھی ، تواچانک کئی اسلامی ریاستیں نکل کھڑی ہوئیں ، دنیا کو حیرت ہوئی کہ ستّر سال کمیونزم کے آہنی پنجے میں دبے رہنے کے باوجود مسلمان اب بھی اتنی بڑی تعداد میں موجود ہیں ۔ اس وقت دار المصنفین اعظم گڈھ میں ڈربن یونیورسٹی (افریقہ) کے پروفیسر حبیب الحق صاحب تشریف لائے تھے ، انھوں نے خود ان ممالک اور ریاستوں میں جاکر ان کا مشاہدہ کیا تھا ، انھوں نے جدید وقدیم تعلیم یافتہ حضرات کے مجمع میں ۔۔۔۔۔اور ان میں وہ بھی تھے جو کسی طرح تصوف کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ـــــ۔۔۔۔۔ بڑی قوت سے کہا کہ ان ممالک میں اسلام کی حفاظت کی خدمت ان لوگوں نے انجام دی، جنھیں آج کچھ لوگ اچھی نظر سے نہیں دیکھتے ، انھوں نے کہا وہاں خطرناک سے خطرناک حالات میں جن لوگوں نے اسلام کو سینوں سے لگائے رکھا ، وہ تاریک جنگلوں اور دشوارگزار بیابانوں اور گھاٹیوں میں چھپ چھپ کر ماؤں کی گود سے شب کے سنّاٹے میں ننھے منے بچوں کو لے جاتے اور دنیا کی نگاہوں سے بچ کر انھیں قرآن کی تعلیم دیتے ، یہ صوفیہ