تخت پر آتا ہے جس کے علم اور بزرگی کا شہرہ عام ہے۔
مگر یہ کتنے دکھ کی بات ہے کہ مذکورہ بالا حلقے میں اس جیسے عظیم بزرگ کی کھال بھی محفوظ نہیں رہی ، کیا ان کے حصے میں یہی بات رہ گئی ہے کہ جن بزرگوں نے سب کچھ قربان کرکے رسول اﷲ اکی شریعت کی حفاظت کی ہے ، ان کے گوشت اور کھال کو زاغ وزغن کے قبضے میں دے دیا جائے، اور کسی کے کان پر جوں بھی نہ رینگے ۔ان کاقصور کیا تھا کہ ان کی خدمات پر پانی پھیرنے کی سعی کی جارہی ہے ؟ قصور یہ ہے کہ یہ بزرگ اور ان کے سلسلے کے دوسرے بزرگ تصوف کے علمبردار تھے ، ان کی زندگی کا سب سے جلی عنوان تصوف تھا ، اور تصوف اس حلقہ میں قطعاً گردن زدنی ہے ۔ تصوف کے ہوتے ہوئے کوئی نیکی قابل قبول نہیں اور تصوف نہ ہو تو شاید ہر گناہ قابل عفو ہے۔
تصوف! جس کے بغیر کل تک کسی دینی شخصیت یا دینی خدمت کی تکمیل نہیں ہوتی تھی۔تصوف!جس کی خانقاہ میں مجاہدین اسلام کی پرورش ہوئی ہے۔تصوف !جس کو ہندوستان کے خدامِ دین کی زندگی سے نکال لیجئے تو کچھ نہیں بچتا۔تصوف! جس نے اﷲ کے بے شمار بندوں کو دین وایمان کے لئے بڑی سے بڑی قربانی دینے کا حوصلہ بخشا تھا ۔ چودہویں صدی ہجری کے وسط تک کسی بزرگ ، کسی عالم دین کا نام لیجئے ، تصوف اس کی زندگی میں جگمگا رہا ہوگا ، حتیٰ کہ جماعت مذکور کے ابتدائی پیشوا میاں نذیر حسین صاحب اور نواب صدیق حسن صاحب بھوپالی وغیرہ بھی اس میکدہ کے مے گساروں میں تھے ۔ ہندوستان کا مشہور خانوادہ جس کو یہ لوگ قبولیت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ، بلکہ اس خانوادہ کو اپنا پیشوا تسلیم کرتے ہیں ، یعنی شاہ ولی اﷲ محدث دہلوی اور ان کی اولاد واحفاد ، حضرت شاہ عبد العزیز صاحب اور حضرت شاہ محمد اسماعیل شہید، ان سب حضرات کی تربیت تصوف ہی کے زیر اثر ہوئی تھی ، اب وہی تصوف ایک ناقابل معافی جرم بن چکا ہے ، نہ جانے اس کے باوجود شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی اور شاہ محمد اسماعیل شہیدکو یہ لوگ ابھی تک کیوں اپنا پیشوا تسلیم کئے جارہے ہیں ، حالانکہ ان کے پورے وجود پر تصوف چھایا ہوا ہے۔