کان لم تغن بالامس کذلک نفصل الآیات لقوم یتفکرون (سورہ یونس ۲۴)
دنیا کی زندگی کی مثال ایسی ہے جیسے آسمان سے بارش ہوئی اور اس کی وجہ سے زمین کی ہر یا لی ملی جلی پیدا ہوئی ،جس سے آدمی بھی غذاحاصل کر تے ہیں اور جانور بھی اسے کھا تے ہیں پھر جب زمین رونق حاصل کر کے اچھی طرح مزین ہو جا تی ہے اور زمین والے سمجھتے ہیں کہ انہیں اس رونق و زینت پر قابو حاصل ہو گیا ہے تو نا گا ہ ہما را حکم رات یا دن میں کسی وقت آپہونچتا ہے پھر اس تمام تر زینت ورونق کو تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں ایسا کہ گویا یہ سب کچھ تھا ہی نہیں ،اسی طرح ہم غور و فکر کر نے والوں کیلئے نشانیاں بیان کر تے ہیں ۔
جب دنیا کی زندگی کی مثال یہ ہے ،تو یہ بات واضح ہے کہ عقل مند کون ہو گا ؟وہ جو دنیا اور لذت دنیا میں مرے ؟یا وہ جو اس فنا ہو جانے والی گذر گاہ سے احتراز کر تا ہوا گذر جائے
إنﷲ عباداً فطنا
طلقوا الدنیا وخافوا الفتنا
نظروا فیھا فلما علموا
انھا لیست لحیٍّ وطنا
جعلوھا لجّۃً واتخذوا
صالح الاعمال فیھا سفنا
٭کچھ بندے اﷲ کے بہت سمجھدار ہیں ، انھوں نے دنیا کو طلاق دے دی ، اور فتنوں سے احتراز کیا ۔
٭ انھوں نے دنیا میں غور کیا ، پھر جب وہ سمجھ گئے کہ یہ کسی زندہ کے لئے وطن نہیں ہے۔
٭ تو انھوں نے اسے دریا قرار دے کر ،اعمال صالحہ کو اس کے لئے کشتی بنالیا ، اور نجات حاصل کرلی۔
جب بندوں کا حال یہ ہے کہ اﷲ کی بندگی بجالانا ، ان کی غایت زندگی ہے ، اور دنیا کا حال یہ ہے کہ کبھی وہ بارونق اور ہری بھری دکھائی دیتی ہے ،اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے سوکھ کر ریزہ ریزہ اور فنا ہوجاتی ہے، تو پھر بندوں کو غور کرنا چاہئے کہ انھیں کیا کرنا ہے ؟ اسی زوال آمادہ دنیا اور لذاتِ دنیا کے پیچھے دیوانہ رہیں ؟ یا اس گزرگاہ سے اسی طرح گزریں جس طرح اﷲ کے نیک بندے چلتے ہیں ؟ عقل کی بات تو یہی ہے کہ وہ عقل والوں کی راہ اختیار کریں ۔