اور بد بختی و شقاوت کو بنایا ۔
پھر ظاہر ہے کہ حق تعالی کی عبادت و بندگی کے طریقوں کی معرفت اور دین اسلام کی عملی تشکیل رسول اللہ (ﷺ) کی سیرت اور آپ کے طریقۂ عمل کے جاننے پر موقوف ہے وہ طریقۂ عمل جس پر آپ نزول وحی کے آغاز سے تکمیل دین کے اختتام تک کا ر بند رہے ۔
اور اس کی اصل یہ ہے کہ قرآن پاک میں حق تعالی نے ارشاد فر ما یا ہے کہ:
و ما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون ما ارید منھم من رزق و ما ارید ان یطعمون (الذریات ۵۶۔ ۵۷)میں نے جناتوں اورانسانوں کو محظ اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کریں میں ان سے نہ روزی کا مطالبہ کر تا ہوں اور نہ یہ کہ وہ میرے لئے روزی کا سامان فراہم کریں ۔
یعنی ان سے میرا مطالبہ یہ نہیں ہے کہ وہ اپنے لئے یا دوسروں کیلئے روزی کمائیں اور نہ یہ کہ وہ روزی حاصل کر کے مجھے دیں کہ میں اپنے بندوں میں تقسیم کر سکوں تمام بندوں کو روزی دینا اور ساری مخلوق کیلئے غذا اور ضرورت کا ہر سامان مہیا کر نا، یہ میرا کام ہے ،بندے اس لئے یکسو ہو کر میری عبادت اور میرے احکام کی اطا عت میں لگے رہیں ۔
یہ آیت اس باب میں صریح ہے کہ انسان اور جنات کی تخلیق صرف اللہ کی عبادت کیلئے ہو ئی ہے،اس لئے ان پر لا زم ہے کہ وہ جس کام کیلئے پیدا کئے گئے ،اس کا پورا اہتمام کریں اور دنیا اور لذات دنیا کو اپنا مطمح نظر ہر گز نہ بنائیں کیوں کی یہ دنیا فانی ہے یہاں کسی کو ٹھہراو نہیں ہے یہ محض ایک گذر گاہ ہے منزل قیام و قرار نہیں ،یہ ایک ختم ہو جا نے والی راہ ہے کوئی دائمی وطن نہیں ہے پس بیدار و فہیم وہی ہے جو عبادت گذار ہے ،اور عاقل ترین انسان وہ ہے،جو دنیا کی رغبت نہیں رکھتا ۔
حق تعا لی کا ارشاد ہے:
انما مثـل الحیوۃ الدنیا کماء انزلناہ من السماء فاختلط بہ نبات الارض مما یاکل الناس و الانعام حتی اذا اخذت الارض زخرفھاو زینت و ظن اھلھا انھم قادرون علیھا اتاھا امرنا لیلا او نھا را فجعلناھا حصیدا