وطبعی اختلاف کی بنیاد پر ہم جھگڑے کھڑے کرلیتے ہیں مگر محبت واتحاد کی جو بنیادہے ، یعنی ایمان اسے نظر اندازکردیتے ہیں ۔
ایک تیسری چیز اور بہت قابل لحاظ ہے ، اسلام نے اور اﷲ اور اس کے رسول نے مسلمانوں کو ایک خاص امتیازی تشخص عطا فرمایا ہے ، یہ تشخص جیسے سیرت وکردار اور طبیعت ومزاج سے تعلق رکھتا ہے ، اسی طرح شکل وصورت اور وضع قطع سے بھی متعلق ہے ، چہرے پر خدا کا نور یعنی ڈاڑھی بڑھی ہوئی ، مونچھیں ترشی ہوئی ، لباس ایسا ہو جو اعضاء مستورہ کو چھپائے رکھنے میں کامیاب بھی ہو اور ٹخنوں سے نمایاں اوپر بھی ہو ، سر پر کلاہِ عظمت ہو ، خواہ وہ عمامہ ہو یا کم ازکم ٹوپی ہو ، ننگے سر پھرنا تہذیب اسلامی کے منافی ہے ، دھوتی ہندوؤں کا لباس ہے ، جو سترکے پوشیدہ رکھنے میں ناکام ہے ، پتلون انگریزوں کا خاصہ ہے ، جو قابل شرم اعضاء کو چھپانے کے بجائے ان کی مزید نمائش کرتا ہے ، اور اس کا ایک لازمہ یہ بھی ہے کہ وہ ٹخنوں سے نیچے لٹکتا ہے ، جو کسی صورت میں جائز نہیں ۔
اگر مسلمان انگریزوں اور ہندوؤں کی وضع وقطع سے اجتناب کریں اور اس شکل وصورت اور وضع وہیئت کو اختیار کرلیں جو ان کے محبوب ومطاع مطلق حضرت خاتم الانبیاء علیہ الصلوٰۃ والسلام نے مقرر کی ہے ، اور وہی اﷲ کی اورصالحین کی پسندیدہ ہیئت ہے، تو یہ جہاں کہیں ہوں گے ان کی ہیبت چھائی ہوئی ہوگی۔
اب تو حال یہ ہے کہ آپ محض شکل وصورت کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرہی نہیں سکتے کہ سامنے و الا مسلم ہے کہ اس کو السلام علیکم کہیں ، یا غیر مسلم ہے کہ اس کے ساتھ استقبال وملاقات کے دوسرے آداب بجالائیں ، اگر مسلمان اپنے تشخص پر قائم ہوجائے تو نہ کہیں اشتباہ ہو اور نہ کسی کو جرأت توہین ہو ، داڑھی ٹوپی کی ہیبت ایسی نہیں ہے جس کا انکار کیا جائے۔
یہ ایک پیغام ہے کہ مسلمان اپنے نبی کی سنت کی طرف پلٹیں ، سیرت وکردار میں بھی اور وضع وہیئت میں بھی!