سفرکیا ۔ وہاں مسجد کی بنیاد رکھی ، مدرسہ خیر وخوبی سے چل رہا ہے ، انھوں نے اپنا مکان بھی وہیں مدرسہ کے متصل بنالیا ہے، اورازراہ محبت اس خاکسار کے لئے بھی ایک جھونپڑا تعمیر کردیا ہے ، کہ میں وہاں پہونچوں تو اسی میں قیام کروں ۔ اﷲ تعالیٰ ان کی محبت کو قبول فرمائے اور دارین کی سعادت سے نوازے۔آمین
یہ جگہ ضلع ارریہ میں شہر ارریہ کوٹ سے بجانب مغرب ۷؍۸؍کلومیٹر پر واقع ہے ۔ اس سفر میں اہل محبت مجھے کئی جگہ لے گئے ۔ ضلع پورنیہ کے دو ایک گاؤں میں جانا ہوا ، میرے پرانے دوست مفتی تبارک حسین صاحب جنھوں نے مدرسہ دینیہ غازی پور میں مجھ سے تعلیم حاصل کی ہے اور بہادر گنج ضلع کشن گنج کے مدرسہ دار العلوم میں استاذ حدیث ہیں ، اور دینی خدمات میں اور فقہ وفتاویٰ میں ممتاز ہیں ، وہ اپنے گاؤں میں لے گئے، ان کے اور میرے احباب میں ایک مولوی عبد الرحمن صاحب اور ایک مولوی مجاہد صاحب ہیں ، ایک روز ان کے گاؤں کدواہا میں قیام ہوا۔
ہر جگہ مسلمانوں کی بڑی تعداد ملاقات کے لئے اور وعظ سننے کے لئے جمع ہوتی رہی ، لوگ بڑی محبت سے ملتے رہے اور سمع وطاعت کا اظہار کرتے رہے ۔ ان جگہوں پر میں نے بطور خاص عام مجلسوں میں یہ بات عرض کی ، کہ مسلمانوں کی کثرت تعداد دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے ، لیکن دوباتوں سے رنج ہوتا ہے ، ایک تو یہ مسلمانوں میں نمازوں کااہتمام نہیں ہے ، جتنی تعداد پائی جاتی ہے اگر اس کا تھوڑا ساحصہ بھی مسجد میں حاضری دے تو کسی مسجد میں گنجائش باقی نہ رہے گی ، مگر دیکھئے تو ساری مسجد خالی پڑی نمازیوں کی منتظر رہتی ہے ، اس لئے جو حضرات میرے پاس ہیں وہ نمازوں کااہتمام کریں ، اور اپنے گھر والوں اور معاشرہ میں اس کی کوشش کریں ۔
دوسری چیز جو گھن کی طرح معاشرے کو کھارہی ہے ، وہ آپسی اختلافات ونزاعات ہیں ، عقلوں اور رایوں میں اختلاف نہ کوئی انہونی چیز ہے نہ کوئی برائی ہے ، مگر اس اختلاف کے ساتھ باہمی محبت ، خدا ورسول پر ایمان کی بنیاد قائم رہ سکتی ہے ، بڑی خرابی یہ ہے کہ فطری