پڑھ لی جائے ، مسلمانوں کی اکثریت کا علاقہ ،ا دھر بڑی آسانی ہے ، ہر تھوڑے فاصلے پر کوئی مسجد یا دینی مکتب ومدرسہ نظر آجاتا ہے، چنانچہ تھوڑی ہی دور چل کر ایک مسجد نظر آئی ، ساتھ میں ایک دینی مکتب کی بھی عمارت تھی ۔ گاڑی روکی گئی ، اتر کر عصر کی نماز دا کی گئی ، اور تھوڑی دیر وہیں ٹھہر کر مغرب بھی پڑھی گئی ، اتنی دیر میں گاؤں کے کچھ مسلمان آگئے ، انھوں نے اسلامی مزاج کے موافق چائے وغیرہ سے ضیافت کی۔
دورانِ گفتگو ایک صاحب نے کہا کہ اس چھوٹی سی جگہ میں یہ مدرسہ چل رہا ہے ، اس کی تعمیر وترقی کے لئے آپ دعا کردیں ۔ ہمارے رفقاء نے اس کے لئے دعا کی اور وہاں سے روا نہ ہوگئے ، وہ دعا غالباً ان صاحب کو لگ گئی ، جنھوں نے درخواست کی تھی ، رفقائے سفر میں اعظم گڈھ کے جناب حاجی عرفان احمد اعظمی بھی تھے ، جو دہلی میں کاروبار کرتے ہیں ، ان کا وہاں اعظمی ہاسٹل ہے ، انھیں مساجد اور مدارس سے بہت دلچسپی ہے ، انھوں نے اس جگہ پر خصوصی توجہ کی ، مدرسہ کے منتظم جناب محمد صدیق صاحب نے مجھ سے بھی برابر رابطہ برقرار رکھا ۔ یہ مدرسہ کی تعمیری اور تعلیمی ترقیات کی خبر فون سے برابر دیتے ، پھر دوسال پہلے ایک جلسہ کرڈالا ، مجھے بھی حاضری کی دعوت دی، مجھے جلسوں سے نہ مناسبت ہے ، نہ ان کی رغبت ، لیکن ان کی محبت میں گیا ۔ میں نے وہاں عرض کیا تھا کہ اس علاقہ میں آکر اور مسلمانوں کی اکثریت کو دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے ، مگر آپس کے اختلافات ،لڑائی جھگڑوں کو دیکھ کر بہت رنج ہوتا ہے ، آپس کی لڑائیوں سے طاقت ختم ہوجاتی ہے ، حق تعالیٰ کی ناراضگی آتی ہے ، بڑی تعداد سے جو قوت وشوکت حاصل ہوسکتی ہے اس کی ہوا نکل جاتی ہے، اس موضوع پر تفصیل سے کلام کیا ۔ مگر ہوا وہی جس کا اندیشہ تھا ، جلسے کے کچھ دنوں کے بعد وہ مدرسہ باہمی اختلاف کااس طرح شکار ہوگیا کہ محمد صدیق صاحب نے دل برداشتہ ہوکر اس کے انتظام سے کنارہ کشی اختیار کرلی ، اور سڑک کے دوسری جانب اپنی ذاتی زمین پر مدرسہ اور مسجد کی بنیاد ڈال دی ، مکتب تو وہاں شروع کردیا ، مسجد کی زمین متعین کردی ، انھوں نے مجھے دوبارہ دعوت دی ، ان دنوں میں بیمار تھا ، مگر ان کی محبت نے مجبور کیا ، اور میں نے وہاں کا