تاریخ رہی ہے ، تاریخ کا یہ تسلسل آج بھی باقی رہنا چاہئے ، ورنہ تسلسل کا انقطاع اس ادارہ کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دے گا۔
مولانا مرغوب الرحمن صاحب علیہ الرحمہ کے انتقال کے بعد جوایک بھونچال کی سی کیفیت پیدا ہوئی تھی ، اور دورِ حاضر کی فتنہ پرور میڈیا نے اس بھونچال کو مزید آگے بڑھانے کاعمل شروع کردیا تھا، اندیشہ ہوچلا تھا کہ کہیں اس پناگاہ دین ومذہب میں دراڑیں نہ پڑجائیں ، شکر ہے حق تعالیٰ کی مدد شامل ہوئی ، اب حالات میں درستگی آچلی ہے اور ٹھہراؤ پیدا ہوگیا ہے۔ دار العلوم کے اہتمام کے لئے جیسی بزرگ شخصیت درکار تھی حق تعالیٰ کی مہربانی سے امید ہے کہ حضرت مولانا مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی مدظلہ کے ذریعے وہ ضرورت باحسن وجوہ پوری ہوگی ، مفتی صاحب طالب علمی کے دور میں دار العلوم کے ممتاز ترین طالب تھے ، اساتذہ کی نگاہ میں بااعتماد تھے ، فراغت کے بعد مسلسل علمی ودینی اور اصلاحی مساعی میں سرگرم رہے ، درس وتدریس کا سلسلہ بغیر انقطاع کے قائم رہا ، ایک عرصہ سے دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ اور مجلس تعلیمی کے معتمد رکن ہیں ۔ ان کا انتخاب ہم لوگوں ، دار العلوم کے بہی خواہوں کے خیال میں ’’ حسنِ انتخاب‘‘ ہے۔
حق تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا ہے کہ حسن توفیق اور نصرتِ الٰہی ہر قدم پر رفیق ورہبر رہے ، اور بزرگوں کی یہ امانت اسی طرح حق خدمت ادا کرتی رہے جو اس کا سرمایۂ امتیاز ہے۔
ایں دعا ازمن ازجملہ جہاں آمین باد
(مارچ، اپریل ۲۰۱۱ء)
٭٭٭٭٭