جاتے ہیں ،ایک خطے پر مسلمان حکومت کریں اور ایک خطے پر ہندو!
یہ ایک سازش تھی جس کو مسلمانوں میں سے بھی بہت سے لوگوں نے سمجھا ، اور ہندوؤں میں سے بھی بہت سے افراد نے سمجھا ، اور دونوں طرف سے اس کی مخالفت ہوئی ، لیکن انگریزوں نے اس موضوع پر دونوں قوموں کو اس طرح ٹکرایا اور اتنی جذباتیت اور سطحیت پید کردی اور اس قدر سر پھٹول کرایا، کہ سنجیدہ اور سمجھدار افراد بھی یہ سوچنے لگے کہ شاید باہم ساتھ نباہ نہ ہو۔ بالآخر ایک خونیں ہنگامہ اور طوفانی جھٹکے کے ساتھ ملک کے تین ٹکڑے کرکے انگریز نے یہاں سے اپنی بساطِ سیاست لپیٹ لی ، اب پورب بھی خاک وخون کی ہولی کھیلی جارہی ہے ، اور پچھم بھی آگ کے شعلے اٹھ رہے ہیں ۔
اس سے ایک مدت کے بعد قدرے سکون ہوا ، تو ملک کے تینوں ٹکڑے باہم دست وگریباں رہنے لگے ، چین اور اطمینان کسی طرف نہیں ۔
اس تقسیم شدہ ملک کا وہ حصہ ، جو بھارت اور ہندوستان کہلایا ، یہ رقبہ اور آبادی کے لحاظ سے بڑا ہے ، لیکن مسلمان اس میں قومی لحاظ سے پچھلی صف میں چلا گیا ۔ تقسیم کے ہنگاموں کے بعد ملت اسلامیہ یہاں واقعی اور محسوس طور پر اقلیت میں آگئی ، تعداد کے لحاظ سے ، تجارت اور اقتصادیات کے لحاظ سے ،اور آخری حد یہ ہے کہ احساس وفکر کے لحاظ سے بھی ! یہ ملت پیچھے سے پیچھے چلی گئی۔
ہندوستان میں بسنے والی ملت سلامیہ کا کوئی فرد گھر کے باہر نکلتا ہے ، سفر کرتا ہے ، سرکاری دفاتر میں جاتا ہے ، بازار میں داخل ہوتا ہے ، علاج کے مراکز اور ہسپتالوں میں جاتا ہے ، اسکولوں اور کالجوں میں قدم رکھتا ہے ، تو ہر جگہ اپنی ملت والوں کو تقریباً صفر کے درجے میں پاتا ہے ، ہر جگہ دوسری اقوام کا غلبہ اور عمل دخل نظر آتا ہے ، اس وقت طبیعت پر ایک ہراس اور شکست ویاس کی کیفیت چھانے لگتی ہے۔
اس صورت حال میں کبھی ملک سے باہر کسی اسلامی ملک میں جانے کا اتفاق ہوتا ہے ، اور ہر طرف مسلمان ہی مسلمان دکھائی دیتے ہیں ، تو قلب کا حال بدل جاتا ہے ،