ہر جھاڑی کو یہ نہ سمجھو کہ خالی ہے ،ممکن ہے وہاں کوئی چیتا سویا ہوا ہو۔
اور یہ جو عرض کیا گیا کہ ان تنقیدکی ضربوں سے مشائخ اور بزرگان دین کی آبرو مجروح ہوتی ہے ، تو یہ و اقعہ ہے ، کچھ عرصہ پہلے تک تو فقہاء کرام ان کی نوازشوں اور عنایات کے مورد تھے ، مگر اب دائرہ وسیع ہوگیا ہے ، جو لوگ ہندوستان میں ملت اسلامیہ کی آبرو تھے ، جنھوں نے اپنی پوری زندگی دین کی خدمت کے لئے وقف کردی تھی ، اور جو اس ملک میں دین کے تحفظ وبقاء کے جلی عنوان تھے۔
اب ان کی عزت وآبرو بھی تار تار ہورہی ہے ۔کون نہیں جانتا کہ ہندوستان میں ایک زمانہ میں حکومت کی سطح پر دین اسلام کے خاتمہ کااعلان ایک ایسے بادشاہ کی طرف سے کرایا جارہا تھا ، جس کے آباء واجداد مسلمان تھے ، لیکن اسے باور کرادیاگیا تھا کہ دین محمدی پر ہزارسال بیت چکے ہیں ، اس لئے اس کی عمر پوری ہوچکی ہے ، اب بادشاہ سلامت ایک دوسرے دین کی داغ بیل ڈالیں ، چنانچہ جلال الدین محمد اکبر بادشاہ نے ’’دین الٰہی‘‘ کے نام سے ایک نئے دین کا ’’معجون مرکب‘‘تیار کیا ۔ اس وقت ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہندوستان سے دین اسلام کا خاتمہ ہوجائے گا ، مگر اﷲ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت کے لئے اپنے ایک بندے حضرت شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی کو کھڑا کیا ، انھوں نے کمالِ عزیمت کے ساتھ اکبری فتنہ کا خاتمہ کیا ، اﷲ تعالیٰ نے انھیں جو قوتِ ایمانی ، عزیمتِ روحانی اور رسوخِ علم نیز عالی ہمتی عطا فرمائی تھی ، اور اس کے ساتھ حق تعالیٰ کی جو خاص توفیق شامل تھی ، اس کی برکت سے انھوں نے وقت کے سب سے بڑے بادشاہ کے جگائے ہوئے فتنہ کو موت کی نیند سلادیا ، ان کی دینی خدمات کو قبول عام حاصل ہوچکا ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ پر جس کی ذرا بھی نگاہ ہوگی ، وہ مجدد صاحب کی عظمت کے اعتراف پر مجبور ہوگا ، یہ انھیں کی مساعی ٔ مشکورہ اور دعاہائے سحر گاہی کی برکت ہے کہ جس تخت سے دین اسلام کے خاتمہ کا اعلان کیا جارہاتھا ، ایک ہی پشت کے بعد اس پر شاہجہاں جیسا بادشاہ آتا ہے ، جس نے ملک کو اسلامی آثار سے جگمگا دیا، اور اس کے معاً بعد اورنگ زیب عالمگیر جیسا دیندار اور خدا ترس بادشاہ اسی