کل کی اصطلاح میں تقاضائے زمانہ سے باخبر ہو اور اس کے مطابق چلنا جانتا ہو ، وہ ہوا کا رخ پہچانتا ہو ، اور اسی رخ پر قافلہ کو ڈال دینے کی صلاحیت رکھتا ہو ، اس کے پاس حطامِ دنیا کا انبوہ ہو اور اسے عصر حاضر کے نو بنو مطالبوں کے پورا کرنے میں لٹاتا ہو ، ایسے افراد کے ہاتھ میں اگر ملت کا یہ سرمایۂ بیش قیمت چلا گیا تو یہ دین کا نہیں حصولِ دنیا کا مرکز بن کر رہے گا ، دارالعلوم دیوبند کو دنیاوی صنعتوں اور ٹیکنکوں کا مرکز نہیں بننا ہے ، یہ دنیا کے طوفان عالم آشوب میں دین ومذہب کا سفینۂ نجات ہے ، اگر اسے بھی دنیاوی بہاؤ میں ڈال دیا جائے تو وہ طوفان کاایک حصہ بن جائے گا۔
اس کے لئے ایسا سربراہ اور منتظم چاہئے جو صرف دنیا کے تقاضوں سے ہی باخبر نہ ہو ،بلکہ ان کے ان برے اثرات سے بھی واقف ہو، جو دین اور علم دین کے تقاضوں سے متصادم ہیں ، پھر ان سے بچنے اور بچانے کے طریقوں کو بھی جانتاہو، اور انھیں بروئے کار لانے کا حوصلہ بھی رکھتا ہو، اور اسی کے ساتھ علم وفضل ، تقویٰ وطہارت اور نسبت مع اﷲ کی دولت سے مالامال ہو۔
زمانہ خواہ جس طرف جارہا ہو اور چاہے جس رفتار سے جارہا ہو، دار العلوم کارخ اس کی طرف نہیں ہوسکتا ، اس کا اپنا ایک سمت سفر ہے ، اس کو اسی پر قائم رہنا ہے۔ دار العلوم دیوبند کے بانی ٔ محترم حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی علیہ الرحمہ نے اس کے انتظام وانصرام کے چند اصول آغازِ کار ہی میں رقم فرمادئے تھے ، وہ اصول آج بھی وہی اہمیت رکھتے ہیں جو اہمیت ان کی روز اول تھی ، اس خاکسار نے ان اصولوں کی قدرے تشریح وافادیت اپنے ایک مضمون میں کی ہے ، جو میرے مجموعۂ مضامین ’’ مدارس اسلامیہ مشورے اور گزارشیں ‘‘ کے دوسرے ایڈیشن میں شامل ہے۔
اس اہمیت کے پیش نظر یہ بات ضروری ہے کہ دار العلوم کا سربراہ وہی ہونا چاہئے جو ان اصولوں پر مضبوطی سے قائم ہو اور اسے اس باب میں خاصی بصیرت حاصل ہو۔ پھر ایک صدی سے زائد عرصہ دار العلوم پر گزرچکا ہے ، اس کے مہتمم اور ذمہ داروں کی ایک روشن