اس امانت کا کیا حشر ہو؟
بس ایک ہی چارہ نظر آیا کہ اسی قادر مطلق اور حکیم وعلیم کے دربار میں التجا کی جائے کہ اس نے اپنے اس بزرگ اور مقدس دین کی حفاظت کا خود ہی ذمہ لیا ہے، تو اس کی حفاظت اور ترویج واشاعت کے اس اہم ذریعہ اور دین اور علم دین کے اس عظیم ادارہ کے تحفظ وبقا ء کے لئے اسی بارگاہِ عالی سے کوئی فیصلہ صادر ہو۔
بظاہر نظر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ نے یہ دعائیں اور یہ آہ وزاریاں سن لیں اور انھیں قبولیت سے نوازا۔ آندھی اتر گئی ، طوفان تھم گیا۔ بڑی خوش اُسلوبی سے دا رالعلوم دیوبند کے اہتمام کے لئے ایک ایسی شخصیت کا انتخاب ہوگیا جس کے بارے میں عموماً حسن ظن ہے ، کہ یہ انتخاب ایک اچھا انتخاب ہے ۔ دار العلوم دیوبند کی تعلیمی اور علمی ودینی روح کی حامل ایک اہم شخصیت کو یہ منصب سپرد کیا گیا ، جس کے بارے میں یہ بجا امید ہے کہ حق تعالیٰ اس سے اس سرمایۂ ملت کی نگہبانی کی خدمت لیں گے۔
دار العلوم دیوبند صرف ایک تعلیمی ادارہ نہیں ، جہاں تعلیم دی جائے اور بس! بلکہ یہ دین وملت کا قلب ہے جہاں سے ملت اسلامیہ کو زندگی کا تازہ اور گرم خونِ حیات حاصل ہوتا ہے ، یہاں ملت کے جیالوں کی پرورش ہوتی ہے ، یہاں دین ومذہب کے وفاداروں کی تربیت ہوتی ہے ، گمرہی کا جب کوئی طوفان اٹھتا ہے تو یہیں سے اس کا رخ موڑنے والے اور اسے دبانے والے اٹھتے ہیں ، یہ صرف درس وتدریس کا مرکز نہیں بلکہ صحیح علم اور صحیح عمل کاایک زندہ اور متحرک ادارہ ہے ، اس کا ایک خاص مقصد ہے ، اس مقصد کے حصول کا ایک خاص منضبط ومنظم لائحۂ عمل ہے ، دورِ حاضر کے دنیوی تعلیمی اداروں کے جو مقاصد اور ان کے جو طریقہائے عمل ہیں ، ان سے جداگانہ اوصاف وخصائص پر مشتمل یہ ادارہ ہے، اگر اس ادارہ کو دنیوی تعلیم گاہوں پر قیاس کیا گیا اور ان کی دوڑ میں اسے شامل کیا گیا تو یہ اس ادارہ کی ترقی اور زندگی نہیں ، بلکہ اس کا زوال وسقوط اور اس کی موت ہے۔
اس مرکز علم ودانش کی سربراہی کے لئے ایسا شخص ہرگز موزوں نہیں ہوسکتا جو آج