لیکن مسلمان! ملت اسلامیہ کا ممبر! علم نبوت کی وراثت رکھنے والا ! وہ تو بے خبر نہیں ہے ، اس کی پوری کائنات یہی دنیا نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک مختصر سا دار العمل ہے ، اس کے سامنے تو آخرت کی وسیع وعریض کائنات ہے ؟ وہ اسے کیوں نظر انداز کردیتا ہے ، اور دینی وملی امانتوں کے حق میں وہ طریقہ کیوں اختیار کرتا ہے جس کا برا حشر سب کے سامنے ہے۔
دار العلوم دیوبند ہمارے دینی وعربی مدارس کا نقطۂ آغاز ہے ، اس میں شوریٰ اور مشورہ کو ہمیشہ اہمیت دی گئی ہے ، شورائیت کے نظام پر اس کی بنیاد ہے ، لیکن رائے شماری اور ووٹوں کی کثرت کا اس میں کبھی اعتبار نہیں کیا گیا ہے ۔ حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہٗ کے دور سرپرستی میں ایک نازک موقع ایسا آگیا کہ ایک صاحب کو ان کے عہدے پر اگر برقرار نہ رکھا گیا تو سخت فساد کا اندیشہ ہے، ان سے
’’ اربابِ مشورہ نے عرض کیا ، کہ ان کے موقوف ہونے سے کوتہ اندیشوں کو دراندازی کا موقع ملے گا ،‘‘
مولانا نے اس کے جواب میں ارشاد فرمایا:
’’گوتمام عالم مخالف ہوجائے ، جب تک مدرسہ کا تعلق ہم لوگوں سے ہے ، اس کے ہم ذمہ دار ہیں کہ، کسی بے جا کارروائی کو ہم چھپا نہیں سکتے ، ‘‘
ارباب شوریٰ نے عرض کیا ، ان کو موقوف کرنے پر جو نزاع برپا ہوگی ، اس سے مدرسہ کو نقصان پہونچنے کا اندیشہ ہے ، بلکہ عجب نہیں مدرسہ کو ٹوٹنے کا خطرہ ہو، مولانا نے فرمایا،اور حضرت کا یہ ارشاد آبِ زر سے لکھنے بلکہ لوحِ دل پر نقش کرنے کا مستحق ہے، فرمایا:
’’ مدرسہ خدا کی رضامندی کے واسطے کیا گیا ہے ، اور جو کچھ ہم کررہے ہیں اسی کے واسطے ہے ، اگر اسی کے ہم گناہ گار ہوکر اس کو انجام دیں تو کون سے ثواب کی بات ہے، جب تک اس کی رضامندی کے موافق کام ہوسکے ، اس وقت تک کریں گے ، ورنہ چھوڑدیں گے ،‘‘
پھر اسی کے مطابق فیصلہ ہوا۔ کثرت رائے کا ذکر ہی درمیان میں نہیں آیا، اور وہ صاحب مدرسے کے عہدے سے برطرف کردئے گئے ۔ یہ تفصیل مولانا عبد الحی صاحب