دین بیزار حلقوں میں یہ منظر کچھ قابل تعجب نہیں ہے ، کیونکہ ان کے پاس کوئی خدائی ہدایت نامہ نہیں ہے ، ان کی اپنی سوچ ہے ، اپنی عقل ہے ، اپنا تجربہ ہے ، اور یہ سب ناتما م ہے ، ان میں الجھاؤ ہو ،تضاد ہو، انتشار ہو ، ٹکراؤ ہو ۔ سب عین قیاس ہے، لیکن اس سے اس ملت کا متاثر ہوجانا ، اور اس ناتمام طریقہ کو اختیار کرلینا سخت قابل حیرت اور باعث تاسف ہے، جس کے پاس ایک مکمل خدائی ہدایت نامہ موجود ہے ، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ گم اور مضمحل ہوچکا ہو ، بلکہ اپنی پوری تابانی کے ساتھ تروتازہ ہے ، لیکن اسے چھوڑکر جمہوریت کا ناقص اور ناتمام طریقہ آزمایا جاتا ہے ، اس طریقے سے کیا امید کی جاسکتی ہے کہ عہدوں اور مناصب پر اہل افراد آسکیں گے؟
جس ملت کو یہ احساس ہے کہ کل اسے حق تعالیٰ کے حضور اپنے تمام اعمال ، اپنی ہر ایک نیت ، اپنے ہر ایک ارادے کے ساتھ حاضر ہونا ہے، اور وہاں ہر بات کا حساب دینا ہوگا ، وہ ملت اپنے طریقہ کو چھوڑ کر غیروں کا طرز عمل دہرانے لگ جائے ، تواس کا کیا حشر ہوگا؟ اﷲ کی نظر سے گرے گی ، دنیا میں جگ ہنسائی ہوگی ، آپس میں انتشار ہوگا، آخرت میں شرمندگی ہوگی۔
مدارس کے علماء ومدرسین اور ارباب انتظام کے لئے یہ بڑا لمحۂ فکریہ ہے ، کیونکہ دین کے ترجمان یہی لوگ ہیں ، رسول اﷲ اکی وراثت انھیں کے پاس ہے ، قرآن وسنت کی روشنی ان کے سینے میں ہے ، راستہ ان کے سامنے واضح اور صاف کھلا ہوا ہے، ان کا ہر قدم قرآن وسنت کے راستے میں احتیاط سے اٹھنا چاہئے ، تاکہ حق تعالیٰ کی رحمتیں ان کا استقبال کریں ۔ نہ یہ کہ اسے چھوڑ کر ، اس سے منہ موڑ کر ان لوگوں کی راہ اختیار کریں ، جو ہر قدم پر منہ کے بل گرتے ہیں ، ان کی کل کائنات تو یہی دنیا ہے ، آگے کیا ہوگا؟ اس سے وہ بے خبر ہیں ، اور اسی بے خبری میں جس کا جدھر منہ اٹھتا ہے ، جدھر سبز باغ دکھائی دیتا ہے ، جدھر مال وجاہ کی فراوانی نظر آتی ہے ، ادھر ہی بگٹٹ دوڑ پڑتا ہے ، چاہے نظام عالم درہم برہم ہوجائے۔