ہوجائے گا ، اسلام میں اضمحلال آجائے گا ، جہل کا غلبہ ہوگا ، علم فنا ہوجائے گا، اہل حق ، حق کو قائم کرنے سے بے بس ہوجائیں گے ۔ ( فیض القدیر ،ج!، ص:۴۵۱)
اس حدیث کو بہت اہتمام اور غور وفکر کے ساتھ پڑھنا چاہئے ، اور رسول اﷲ اکے فرمان اور آپ کی منشا کی تعمیل کیلئے آپ کی امت کو پوری سعی کرنی چاہئے۔
ہم جس ملک اور جن حالات میں رہتے ہیں ، ان میں ذہن ودماغ پر طرزِ جمہوریت کا تسلط ہے ، جمہوریت کا حاصل یہ ہے کہ مدارکار رایوں کی گنتی پر ہے ، عقل ودرایت کے وزن پر نہیں ، جس کو جو منصب حاصل کرنا ہوتا ہے ، وہ اپنے حق میں زیادہ سے زیادہ رائے اور دوسرے رائج الوقت لفظ میں ’’ووٹ‘‘ جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے ، ووٹ جمع کرنے کے لئے جو تدبیریں استعمال کی جاتی ہیں ، ان سے ناظرین ناواقف نہیں ۔ ’’ زور‘‘’’زر‘‘ اور ’’زاری‘‘ سب طاقتیں بروئے کار لائی جاتی ہیں ، یعنی رائے خریدی بھی جاتی ہے، اس کی بڑی سے بڑی قیمت لگتی ہے ، خریدنے والا اپنی مالی حیثیت کے مطابق خریدتا ، یا حاصل ہونے والے نفع کو سامنے رکھ کر اس کی قیمت لگاتا ہے ، اس کے ساتھ اپنی اور اپنے جتھے کی طاقت بھی استعمال کرتا ہے ، دھمکیاں ، ڈراوا اور اﷲ جانے کیا کیا ’’ ہتھ کنڈے‘‘ عمل میں لائے جاتے ہیں ، پھر جہاں ضرورت ہوتی ہے ، عاجزی ونیازمندی ، خوشامد وغیرہ کے ہتھیار آزمائے جاتے ہیں ، اس صورت حال میں کیا یہ امید کی جاسکتی ہے کہ ذمہ دارانہ عہدوں پر اہل اور مستحق افراد آسکیں گے؟جواہل ہوگا وہ تو اپنا دامن دور رکھنے کی کوشش کرے گا ، اور نااہل عناصر اچھل اچھل کر خود کو مسلط کرنا چاہیں گے ، چنانچہ ہم اپنے جمہوری ملک میں ہر تھوڑے تھوڑے وقفہ پر ووٹ کے ہنگاموں کا تماشہ دیکھتے ہیں ، پارلیمنٹ کی سطح سے لے کر چھوٹے چھوٹے دیہاتوں تک رایوں اور ووٹوں کی کشمکش اور دولت وطاقت اور عاجزی ونیاز مندی کے چھوٹے بڑے مناظر ہر طرف نظر آتے رہتے ہیں ، پھر جب الیکشن اور انتخابات کا طوفان تھمتا ہے تو ہر جگہ نااہلوں کی بھیڑ دکھائی دیتی ہے ، ووٹ دینے والے عام لوگ حیران ہوتے ہیں کہ اندازوں کے برخلاف نتائج کیونکر آگئے ؟