سلسلہ چل رہاتھا اسی میں مصروف رہے ، اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ آپ نے اس کا سوال سن تو لیاہے ، مگر آپ کو اس کی بات پسند نہ آئی ، بعض نے کہا کہ نہیں آپ نے سناہی نہیں ، پھر جب بات پوری ہوچکی تو آپ نے فرمایا کہ قیامت کے متعلق جو پوچھ رہاتھا وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا حضرت! میں یہ موجود ہوں ، آپ نے فرمایا کہ جب امانت ضائع کردی جائے ،تو قیامت کاانتظار کرو، انھوں نے کہا کہ اس کا ضائع کیا جانا کیونکر ہے؟ آپ نے فرمایا کہ ذمہ داری جب نااہل کے سپرد کردی جائے ، تو قیامت کاانتظار کرو۔
اس حدیث میں رسول اکرم انے کی قربِ قیامت کی ایک اہم علامت ارشادفرمائی ہے ، یہ بات معلوم ہے کہ قیامت اس وقت آئے گی جب دنیا میں برائیاں عام ہوجائیں گی، نیکیاں سمٹ کر معدوم ہوجائیں گی، ہر خیر اور نیکی قیامت کو روکنے والی ہے ، اور ہر شر اور معصیت اسے قریب کرنے والی ہے ، تو وہ بڑی برائیاں جو قیامت کو دعوت دینے والی ہیں ، قربِ قیامت کی علامتیں ہیں ، پوچھنے والے نے پوچھا کہ قیامت کب آئے گی؟ آپ نے کچھ توقف کے بعد جواب دیا کہ جب امانت ضائع کردی جائے ، تو بس سمجھو کہ قیامت قریب ہے ، اب اس کا انتظار کرو، پوچھنے والے کو معلوم نہ تھا کہ امانت کا ضائع کرنا کیونکر ہے؟ آپ نے بتایا کہ کاموں کی ذمہ داری جب نااہلوں کے سپرد کردی جائے تو بس اس کا انتظار کرو۔
مشہور محدث اور عالم علامہ عبد الرؤف مناوی نے إذا وسد الامر کی تشریح میں فرمایا کہ:
’’ جب دینی ذمہ داریاں اور مناصب ، مثلاً عہدۂ خلافت اور اس کے متعلق امور، یعنی امارت منصب قضاء، منصب افتاء اور منصب تدریس وغیرہ، ایسے لوگوں کے حوالے کردئے جائیں جن میں اہلیت نہیں ہے، مطلب یہ ہے کہ جو لوگ شرافت اور سیادت کے مستحق نہیں ہیں انھیں سرداری اور امارت دیدی جائے ، تو سمجھو کہ قیامت قریب ہے۔
کیونکہ اس سے شریعت کے اوامر ونواہی مختل ہوکر رہ جائیں گے، دین کمزور