میں بھی زبان وقلم کی کمی نہیں ہے ، لیکن عموماً لوگ خاموش رہتے ہیں ، اور جواب میں الجھنے کو کارِلایعنی خیال کرتے ہیں ، اور واقعی بات یہی ہے۔ تاہم چند باتیں پیش نظر ہوتی ہیں ، اس لئے کسی قدر جوابی کارروائی پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
اوّل:یہ کہ ان کی بے محابا تنقیدات سے فقہی احکام میں غلو اور تشدد پیدا ہوتا ہے ، مثلاً ناواقفوں کو یہ خیال ہونے لگتا ہے کہ بہت سے فقہی احکام میں احناف بالکل خلافِ سنت ہیں ، حالانکہ وہ مسائل کتاب وسنت کی قوی بنیادوں پر قائم ہیں ، اب انھیں قطعی خلافِ سنت قرار دے کر دوسرے کسی طرزِ عمل میں سنت وشریعت کو منحصر کردینا، یہی تشدد اورغلوہے ، جس کی شریعت میں اجازت نہیں ہے ، اس کی اصلاح ضروری ہے۔
دوسرے:یہ کہ اگر حملہ آور کو روکا نہ جائے تو بے جا طور پر اس کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے اور اس کی وجہ سے بہت سے لوگ تشکیک میں مبتلا ہونے لگتے ہیں ، چنانچہ ان کے شوروغل کی وجہ سے بسا اوقات دیکھا گیا ہے ، جو احناف ان سے ناواقف ہوتے ہیں وہ اپنے مسلک کی طرف سے شک وشبہ کے شکار ہونے لگتے ہیں ، تو اس لئے کہ وہ یہ نہ سمجھ لیں کہ ہمارا جواب دوسروں کے پاس ہے ہی نہیں ، اور اس لئے کہ اپنے لوگ شک وشبہ میں نہ مبتلا ہوں ، جواب دینے کی ضرورت پیش آتی ہے۔
تیسرے :یہ کہ ان کی تنقیدوں کے ضربات سے بہت سے ائمہ متقدمین ، مشائخ اور بزرگان دین کی آبرو مجروح ہوتی ہے ، اور اس کے نتیجے میں پچھلوں کا رشتہ اگلوں سے ٹوٹنے لگتا ہے ، جو ان کے لئے خسارہ کاباعث ہے ، یہ ضرورت بھی مجبور کرتی ہے کہ انھیں سمجھایا جائے، اور ان کی خدمت میں عرض کیا جائے، ؎
اتنی نہ بڑھا پاکی ٔداماں کی حکایت دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
اور اگر اس کا لحاظ نہیں کیا گیا تو یہ بات ہمیشہ پیش نظر رہنی چاہئے کہ تُرکی بہ تُرکی جواب دینے والے موجود ہیں ۔ سعدی علیہ الرحمہ کی یہ نصیحت بہت برمحل ہے ؎
ہر بیشہ گماں مبر کی خالی ست شاید کہ پلنگ خفتہ باشد