’’ ساری مخلوق عاجز ہے ، نہ کوئی تجھے نفع پہونچاسکتا ہے نہ نقصان، بس صرف اتنا ہے کہ حق تعالیٰ اس کو ان کے ہاتھوں کرادیتا ہے ، اسی کا فعل تیرے اندر اور مخلوق کے اندر تصرف فرماتا ہے ، جو کچھ تیرے لئے مفید ہے یا مضر ہے ، اس کے متعلق اﷲ کا قلم چل چکا ہے ، اس کے خلاف نہیں ہوسکتا، جوموحد اور نیکوکار ہیں ، وہ باقی مخلوق پر اﷲ کی حجت ہیں ، بعض ان میں سے ایسے ہیں جو ظاہر اور باطن دونوں اعتبار سے دنیا سے برہنہ ہیں ، گودولت مند ہیں ،مگر ان کے اندرون پر دنیا کاکوئی اثر نہیں پاتا۔ یہی قلوب ہیں جو صاف ہیں ، جو شخص اس پر قادر ہوا ، اس کو مخلوقات کی بادشاہت مل گئی ، وہی بہادر پہلوان ہے ، جس نے اپنے قلب کو ماسوی اﷲ سے پاک بنایا اور قلب کے دروازہ پر توحید کی تلواراور شریعت کی شمشیر لے کر کھڑا ہوگیا کہ مخلوقات میں سے کسی بھی اس میں داخل نہیں ہونے دیتا، اپنے قلب کو مقلب القلوب سے وابستہ کرتا ہے ، شریعت اس کے ظاہر کو تہذیب سکھاتی ہے ، اور توحید ومعرفت باطن کو مہذب بناتی ہے۔
( فیوض یزدانی ترجمہ الفتح الربانی ، مجلس :۱۳)
ایک دوسرے موقع پر خدا کی غیرت ، شرکا سے نفرت اور انسان کی محبوب چیزوں کے سلب اور ضائع ہونے کی حکمت اس طرح بیان کرتے ہیں :
’’ تم اکثر کہتے ہوگے کہ میں جس سے محبت کرتا ہوں ، اس سے میری محبت رہنے نہیں پاتی اور رخنہ پڑجاتا ہے، یاتو جدائی ہوجاتی ہے ،یاوہ مرجاتا ہے،یا رنجش ہوجاتی ہے ، اور مال سے اگر محبت کرتا ہوں تو وہ ضائع ہوجاتا ہے اور ہاتھ سے نکل جاتا ہے ، تب تم سے کہاجائے گا کہ اے خدا کے محبوب ! اے وہ کہ جس پر خدا کی عنایت ہے ! اے وہ جو خدا کا منظور نظر ہے ، اے وہ جس پر خدا کی غیرت آتی ہے ! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ اﷲ غیور ہے ، اس نے تم کو اپنے لئے پیدا کیا اور تم غیر کے ہورہنا چاہتے ہو، کیا تم نے خدا کا یہ ارشادنہیں سنا، یحبھم ویحبونہ ، وہ ان لوگوں کو دوست رکھتا ہے، اور وہ ا سے ۔ اور یہ ارشاد ہے کہ وماخلقت الانس والجن إلا لیعبدون ، میں