ودیانت کے کس مقام بلند پر وہ فائز تھے ، اوریہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حق تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت وجلال اور مخلوق کی کمزوری اور بے بسی ان کے سامنے کتنی واضح ہے ، لیکن یہ کس قدر ستم ہے کہ وہی جو مخلوق کی بے بسی اور بے چارگی کو اس شدومد کے ساتھ بیان کرتے ہیں ، انھیں کے اختیار وقدرت کو لوگ حق تعالیٰ کی قدرت وطاقت کے مرتبہ تک پہونچادیتے ہیں ، ذرا حضرت شیخ کا یہ کلام ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں :
’’ کل مخلوقات کو اس طرح سمجھو کہ بادشاہ نے ، جس کا ملک بہت بڑا اور حکم سخت اور رعب داب دل کو ہلادینے والا ہے ، ایک شخص کو گرفتار کرکے اس کے گلے میں طوق اور پیروں میں کڑا ڈال کر ایک صنوبر کے درخت میں ، ایک دریاکے کنارے جس کی موجیں زبردست ، پاٹ بہت بڑا، گہرائی بہت زیادہ ، بہاؤ بہت زوروں پر ہے ،لٹکادیا ہے اور خود ایک نفیس اور بلند کرسی پر کہ اس تک پہونچنا مشکل ہے ، تشریف فرما ہے اور اس کے پہلو میں تیروپیکان، نیزۂ وکمان اور ہر طرح کے اسلحوں کا انبار ہے ، جن کی مقدار خود بادشاہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ، اور ان میں جو چاہتا ہے اٹھاکر اس لٹکے ہوئے قیدی پر چلاتا ہے ، تو کیا دیکھنے والے کیلئے جائز ہوگا کہ وہ بادشاہ کی طرف سے نظر ہٹالے ، اور اس سے خوف وامید ترک کردے ، اور لٹکے ہوئے قیدی سے امید اور خوف رکھے ، کیا جو شخص ایسا کرے عقل کے نزدیک بے عقل، بے وقوف، دیوانہ، چوپایہ اور انسانیت سے گراہوا نہیں ہے ، خدا کی پناہ ، بینائی کے بعد نابینائی، اور وصول کے بعد جدائی اور قرب وترقی کے بعد تنزل، ہدایت کے بعد گمراہی اور ایمان کے بعد کفر سے۔ ( فتوح الغیب ،مقالہ :۱۷)
جس مخلوق کو لوگ حق تعالیٰ کی قدرت وتصرف میں شریک ودخیل قرادیتے ہیں ، اس کی حیثیت حضرت شیخ کے اس کلام میں بغور ملاحظہ فرمائیے، اور دیکھئے کہ غیر اﷲ کی بے چارگی کاکیا عالم ہے ؟ اور اس کو مرکز نگاہ بنانے والا کس پستی میں گراہوا ہے ۔
اپنے ایک وعظ میں توحید کے مضمون کو اس طرح بیان فرماتے ہیں :