بجائے مدار اور خج مدّین( یعنی خواجہ معین الدین) ترتیب یاد نہیں ، اس طرح اصل ناموں کے بجائے انھیں بزرگوں کے ساتھ منسوب کردیاگیاتھا۔
ربیع الآخر کو بڑے پیر حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر کے ساتھ منسوب کرتے ہیں ،اور اس ماہ کی جو خصوصی رسم ہے وہ گیارہویں شریف ہے ، ربیع الآخر کی گیارہ تاریخ کو زردہ پکاکر اس پر بڑے پیر صاحب کی نیاز دی جاتی ہے ، اور اس رسم کا بڑا اہتمام ہوتا ہے ، خیال ہوتا ہے کہ ۱۱؍ ربیع الآخرکو حضرت کا انتقال ہوا ہے ، لیکن مشہور مورخ ومحدث علامہ شمس الدین ذہبی نے تاریخ الاسلام اور سیر اعلام النبلاء میں ان کی تاریخ وفات ۱۰؍ ربیع الآخر لکھی ہے۔
لیکن گیارہ کی اہمیت اتنی بڑھی کہ وہ ایک خاص نماز کاجز بن گئی ہے ، بعض لوگوں نے عقیدت کے غلو میں ایک نماز ایجاد کرڈالی ہے ، جس کانام ’’ صلوٰۃ غوثیہ‘‘ ہے ، اس کا طریقہ اس طرح دیکھنے میں آیا ہے کہ دورکعت قبلہ رو پڑھتے ہیں ، پھر بغداد کی طرف جہاں حضرت شیخ کی قبر ہے رخ کرکے اس طرف گیارہ قدم چلتے ہیں ، اور پھر نماز کی طرح ہاتھ باندھ کر کھڑے ہوکر اﷲ جانے کیا پڑھتے ہیں ۔ ایک وظیفہ بھی ان کے نام پر ایجاد کررکھا ہے ، وہ ہے یاشیخ عبد القادر شیئاً ﷲ ، اے شیخ عبد القادر اﷲ کے واسطے کچھ عطا ہو ، یہ وظیفہ خالص شرک ہے ، جو ان کے نام پر گڑھاگیا ہے ، اور اس کے علاوہ ان کی طرف ایسے ایسے واقعات وحالات منسوب کررکھے ہیں جن کو نہ عقل روا رکھتی ہے اور نہ شریعت!
یہ بدعات وشرکیات اس ذات کے ساتھ منسوب ہیں جو علم وعمل کا مظہر اور بندگی وتواضع کا خوبصورت پیکر تھا ، وہ ایک زبردست عالم اور فقیہ تھے ، توحید میں ان کا قدم نہایت راسخ تھا ، اتباع سنت ان کا خاص شعار تھا ، علامہ ذہبی نے انھیں الشیخ الامام ، العالم ، الزاہد، العارف ، القدوۃ، شیخ الاسلام، علم الاولیاء کے القاب سے یاد کیا ہے۔
ان کے مواعظ اور ان کے مقالات پڑھئے تواندازہ ہوتا ہے کہ علم وفضل اور دین