نفریں کن تھا ، ہر شخص سے خواہ وہ کوئی ہو ، اپنے تئیں کم وقعت تصور کرتا تھا ، غرض کہ ایک عجیب حال تھا کہ پورا بیان میں آنا مشکل ہے ۔ وہاں سے آنے پر یہ خیالا ت ایسے رہے جیسے کہ کسی دلچسپ خواب کاصبح کو خیال اور لطف ہوتا ہے ، رفتہ رفتہ یہ کیفیت زائل ہوگئی اور چند لمحے کے بعد پھر نفس امارہ أنا ولاغیری اور ’’ہمچومادیگرے نیست‘‘ کے پھندے میں جا پھنسا، یہ خیال میرے نزدیک محض نئے اور نرالے تھے جو مدت العمر میں کسی اور جگہ کبھی نہیں پیدا ہوئے ، اس سے قیاس چاہتا ہے کہ وہ جگہ بھی کچھ اور جگہوں سے نرالی تھی،،،اﷲ بس باقی ہوس۔‘‘( تذکرۂ فضل رحمن گنج مرادآبادی)
غور کیجئے !یہ نرالی جگہ ، یہ نرالی کیفیت اور خیال! کس چیز کا اثر ہے، حضرت مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادی کے قلب پر وہ کیفیت کہاں سے طاری ہوئی، اس کا سرچشمہ بجز تصوف کے اور کیا ہے؟ان کو تصوف ہی نے مرصع کیا تھا ، اور اس چیز کو ان کی زندگی سے نکال دیجئے تو دیکھئے کیا بچتا ہے ۔
تصوف ہمارا بہت قیمتی سرمایہ ہے ، ایک لازوال دولت ہے ، اس راہ سے بندہ اپنے رب سے واصل ہوتا ہے ، تصوف شریعت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے، وہ شریعت کے آدمی میں رچ بس جانے کا ایک بے بدل ذریعہ ہے ۔ اس کے بنیادی ارکان پانچ ہیں ، (۱)صحبت شیخ،(۲) علم شریعت،(۳) ذکر کی کثرت ،(۴) فکر کاالتزام،(۵) اور امراضِ نفسانی کا علاج۔ ان میں کون سی چیز قابل اعتراض ہے ، اور کون سی بات شریعت کے باہر ہے؟
اس سرمایہ کی حفاظت حضرت نانوتوی اور حضرت گنگوہی قدس اﷲ اسرارھما کے اخلاف کی ذمہ داری ہے۔
( رجب تارمضان۱۴۱۸ء؍نومبر،دسمبر۱۹۹۷ء، جنوری۱۹۹۸ء)
٭٭٭٭٭