کے عمل پر اسلامی معاشیات ، اسلامی مالیات اور اسلامی اقتصادیات کا لیبل لگاکر خوش ہوتے ہیں کہ ہم نے بڑا تیر مار لیا ہے ، آخر ہم کب تک دوسروں کے پیچھے دوڑتے پھریں گے؟
مدارس اور علماء کا کام نہ تجارت کا عمل سکھانا ہے ، نہ مالیات کی تحصیل کا طریقہ سکھانا ہے ، انھیں تو حلال کو حرام سے ممتاز کرنا ہے ، خواہ اس سے بطاہر دنیا کا نقصان ہوتا ہو ، لیکن اولاً آخرت کو پیش نظر رکھنا ہے ، یہ علم ، اس علم کے حاملین ، اس علم کی درسگاہیں ، دوسروں کی نقالی کرنے کے لئے نہیں ہیں ان کا احتساب کرنے کے لئے ہیں ۔ اس امت کو اﷲ تعالیٰ نے لتکونوا شھداء علی الناس (البقرۃ: ۱۴۳) قرار دیا ہے کہ دوسروں پر تمہاری گواہی نافذ ہوگی۔
مدرسے جو کررہے ہیں انھیں کرنے دیجئے ، الٹے سیدھے مشورے دے کر انھیں پریشان نہ کیجئے ، جتنا کچھ یہ پڑھ پڑھارہے ہیں ، اس میں رسوخ اور ثبات کا مشورہ دیجئے ، دنیاوی ترغیبات اور مال وجاہ کی حرصیات میں انھیں نہ پھنسائیے ، مال ان کا معبود نہیں ہے ، اس کے محور پر مدرسوں کو نہ گھمائیے، نہ مدرسے والوں کو! یہ جتنا اس میں مبتلا ہیں وہی بہت ہے ، اسی کا حساب مشکل ہوگا ، آگے اور کس کس چیز میں پھنسائیے گا۔
آج کی اقتصادیات کا حاصل ہے ، مال جمع کیجئے ، اس کی گنتی کرتے رہئے ، بخل کیجئے ، بخل کی تعلیم دیتے رہئے ۔ اس اقتصادیات کے بارے میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ملاحظہ ہو: وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃِ لُّمَزَۃِ نِoالَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ ( الھمزۃ: ۱؍۲) ویل ( جہنم ) ہے ہر طعنہ دینے والے ، عیب چینی کرنے والے کیلئے ، جس نے مال سمیٹا اور اسے گنتا رہا۔ مال جمع کرنا، اسے گنتے رہنا یہ اہل جہنم کی صفت ہے ، مومن تو وہ ہے : فَأَمَّا مَنْ أَعْطیٰ وَاتَّقیٰ وَصَدَّقَ بِالْحُسْنیٰ فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْریٰ (اللیل: ۵؍۶؍۷) پس جس نے عطا وبخشش کی اور ڈرتارہا ، اور بھلی بات کو دل وجان سے سچ مانا، تو ہم اس کو بتدریج آسانی میں پہونچادیں گے۔
بخل وامساک نہیں ، بخشش وعطا ، بے تحاشا مال جمع کرنے کی فکر نہیں ، خشیت اور