فرماتے ہیں : کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ وَتَذَرُوْنَ الْآخِرَۃَ ( القیامۃ: ۲۰؍۲۱) نہیں ، بلکہ تم لوگ دنیا سے محبت کرتے ہو ، اور آخرت کو چھوڑدیتے ہو۔
غور کیجئے ، دورِحاضر میں اقتصادیات کی جو تعلیم ہے ، وبجز ترجیح دنیااور حب عاجلہ کے اور کیا ہے ؟ وہ بینکنگ ہو ، انشورنس ہو ، تجارت کے مختلف خوشنما طریقے ہوں ، سب کا حاصل حب عاجلہ ، فریب ، خود غرضی اور اﷲ ورسول سے جنگ کے علاوہ اور کیا ہے ؟ ان سب کامحل مدارسِ اسلامیہ کب ہیں جن میں ترجیحِ آخرت اور زہد فی الدنیا کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔
اگر کسی کا خیال یہ ہو کہ دورِ حاضر کی اقتصادی اصطلاحات سے طلبہ کو واقف کرایا جائے، تو گزارش ہے کہ جس گاؤں میں ہم کو جانا نہیں اس کا راستہ کیوں پوچھیں ، ہمارے سامنے جب کسی مالی معاملہ کی صورت آئے گی، قرآن وسنت کے قواعد کی روشنی میں اس کا حکم بیان کردیا جائے گا۔
ایک بات اور قابل غور ہے ، آج کی دنیا میں جولوگ تجارت کی منڈیوں اور کاروبار کے دروبست پر قابض ہیں ، ان کی عقل وذہانت کا خلاصہ یہ ہے کہ حرصِ مال کو زیادہ سے زیادہ سے ترقی دی جائے ، وہ اس کے لئے ہر روز نئے نئے طریقے گھڑتے رہتے ہیں ،ان کے سامنے نہ حسابِ آخرت ہے ، نہ اﷲ ورسول کا فرمان ہے ، ان کا ایک نظریہ ہے ، وہ یہ کہ مال بڑھتا رہے ، اس کے لئے وہ ہر طریقہ اختیار کرسکتے ہیں ، خواہ اس سے کسی کا نفع ہو یا نقصان! اس معیشت کی بنیاد خود غرضی پر ہے ، وہ جہاں تک ساتھ دیتی ہے ، آدمی بے تکلف چلا جاتا ہے ، کوئی اقتصادی طریقہ وجود میں آتا ہے تو اسے سرے سے اس کا خیال ہی نہیں ہوتا کہ اسلامی اصول وقواعد کیا ہیں ؟ اور ان سے کتنی ہم آہنگی ہے ، پھر جب وہ طریقہ رائج الوقت ہوجاتا ہے اور بظاہر اس میں نفع دکھائی دینے لگتا ہے ، تو ہماری ذہانت اس پر اسلامی اصولوں کو منطبق کرنے یا قدرے ترمیم کرکے اسے اسلامی سانچے میں فٹ کرنے کی کوشش کرنے لگتی ہے ، جبکہ اس کے موجدین اب بھی نگاہِ التفات نہیں کرتے ، اسی انطباق وترمیم