نقائص بہت ہیں ، اس کی افادیت کم سے کمتر ہے پس یہ بیمار ہے ، اس کا علاج ضروری ہے ، اس کے رخنے بند کرنے چاہئیں ، اس کی زندگی نقائص سے پاک ہونی چاہئے ، اس کی افادیت کو ترقی دینا چاہئے ۔ مشہور کردیا گیا کہ دینی مدرسہ بیمار ہے ، پھر اطباء دوائیں لے لے کر دوڑے ، عیادت کرنے والوں نے مشوروں کی جھڑی لگائی، پھر اتنے معائب ، اتنے امراض اور اتنے نقائص تشخیص کئے گئے اور ان کے لئے اتنی دوائیں تجویز کی گئیں ، ایک سے بڑھ کر ایک قیمتی ، اور اتنی گراں بہا کہ مریض ان کی تاب نہ لاسکے!
اوریہ سب اس لئے کہ مدرسہ کے ذمہ دار اور اس کے چارہ گر سماج کے وہ افراد ہیں جنھیں کمزور سمجھاگیا ہے یا کمزور بناکر رکھا گیا ہے، اوروہ ہیں عالمانِ دین یعنی مولوی ملّا۔
کوئی کہہ رہا ہے کہ مدرسوں میں انگریزی تعلیم نہیں ہے! پس اس کا ہونا ضروری ہے ،کوئی پکارتا ہے کہ مدرسے سائنس کی تعلیم سے خالی ہیں ، اس لئے اسے بھی داخل نصاب ہونا چاہئے ، کوئی ہانک لگاتا ہے کہ صنعت وحرفت کے فنون سے مدرسہ محروم ہے ، اس سے بھی اسے عزت دینی چاہئے اور اﷲ جانے کتنے منہ ہیں ؟ اور کتنی باتیں ہیں ؟
ہر روز ایک دوا تجویز ہورہی ہے ، ہر دن ایک مشورہ نازل ہوتا ہے ، ہر رات ایک نئی سرگوشی ہوتی ہے ، جب تک یہ آواز باہر سے آتی تھی مدرسہ کو کوئی فکر نہ تھی ۔ باہر والے اندر کا حال کیا جانیں ؟ وہ کیا اور ان کے مشورے کیا ؟ مدرسہ اپنی ڈگر پر چلتا رہا ، اپنی کمی بیشی خود درست کرتا رہا ۔ زخم دکھائی دیا ، اس پر مرہم رکھ دیا، کمی دیکھی اس کی تلافی کرلی ، بہت مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ کمی دیکھی مگر اپنی کمزوری کی وجہ سے تلافی نہ کرسکا ، مگر باہر والے جو صدا لگارہے تھے ، اصلاح وتلافی کی دعوت دے رہے تھے ، اس پر بجز معدودے چند کے عام مدرسوں نے کان نہیں دھرا ، کیونکہ پکارنے والوں میں خود بہتّر چھید دکھائی دے رہے تھے، وہ آواز چھلنی کی تھی جس میں بہتّر چھید ہیں !
باہر والوں نے محسوس کیا کہ ان کی آواز مدارس کئے کان میں نہیں جارہی ہے ، تو انھوں نے اندر والوں کو تاکا ، ان میں ایسے افراد تلاش کئے جن کے کان میں یہ اجنبی اور