انھیں اپنے حق میں مفید بنانے کاایک ہی طریقہ ہے ، اور وہ ہے اخلاق وانسانیت ! اسلام نے اخلاق واحسان کو بہت اہمیت دی ہے ، ہمارا پڑوسی ہمارے اخلاق کا بہترین موقع ہے ۔ کسی غیر مسلم کی خوشامد نہیں ، اسلامی تعلیم پر عمل کرنے کے جذبے سے ، اﷲ کی خوشنودی کے لئے اگر اخلاق کا برتاؤ کیا جائے ، تو یہ امت مسلمہ کیلئے بڑا زبردست ہتھیار ہے ، لیکن افسوس یہ ہے کہ مسلمانوں نے اسلام کی اس تعلیم کو چھوڑدیا ہے اور دوسرے راستے سے اپنا غلبہ چاہتے ہیں ۔
یہاں اگر مسلمانوں کی کوئی سیاسی پارٹی بنائی جائے اور اسی بنیاد پر دوسروں کو للکارا جائے گا تو ردعمل کے طور پر لازم ہے کہ کفرو شرک میں بھی اجتماعیت پیدا ہوجائے ، جب تک مسلمانوں نے علیحدہ سیاسی پارٹی نہیں بنائی تھی تو پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی خاصی تعداد دکھائی دیتی تھی ، اس الیکشن میں ووٹ مسلم اور غیر مسلم میں تقسیم ہوا، تو پروانچل سے کوئی بھی مسلمان ممبر پارلیمنٹ نہ ہوسکا۔ اس موقع پر ہارنے کے بعد یہ تنظیم آئندہ اسمبلی کے الیکشن پر بھی نظر جمائے ہوئے ہے ، یعنی اسمبلی سے بھی مسلمانوں کا صفایا کرائے گی ۔ لافعل اﷲ
سچائی یہ ہے کہ موجودہ صورت حال میں مسلمانوں کی سیاسی پارٹی ان کے حق میں مضر ہی ہوگی، ہمارے اکابر علماء نے جو جمعیۃ علماء ہند کے پلیٹ فارم سے ملک وملت کی خدمت کررہے تھے ، آزادی کے بعد ایک فیصلہ کیا تھا ، اور وہ فیصلہ بہت برحق اوردرست تھا ، اور جیسے وہ اس وقت برحق تھا آج بھی درست ہے، وہ یہ کہ جمعیۃ علماء ہند آئندہ پارلمنٹری سیاست میں حصہ نہ لے گی ،اور نہ سیاسی پارٹی ہوگی ۔ ان اکابر کی نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر مسلمانوں کی کوئی سیاسی پارٹی بنی اور وہ الیکشن میں حصہ لیتی رہی تو ہندوستان کی جمہوریت ختم ہوکر رہ جائے گی اور یہ ملک ہندو راشٹر بن جائے گا ، کیونکہ پاکستان بن جانے کے بعد دوایک علاقوں کے علاوہ کہیں بھی مسلم اکثریت نہیں ہے ، اور جہاں ہے بھی الیکشن میں اسے بندر بانٹ کرکے مسلم اکثریت کو اقلیت میں لوٹا دیا جائے گا ، پھر کہیں سے کوئی مسلمان کبھی کامیاب نہ ہوگا ، اور پارلیمنٹ ہو یاا سمبلی صرف ہندو ہی ہندو ہوں گے ، پھر اسے ہندو راشٹر بننے سے کون روک سکے گا۔