تھیں ، اس الیکشن میں اس تنظیم کی برکت بھاجپا کو ملی ، اورپارلیمنٹ کا بھاجپائی ممبر کامیاب ہوگیا ، اس تنظیم نے مسلمانوں کا ووٹ بڑی تعداد میں اپنی طرف پھیر لیا ، حالانکہ اسے خوب معلوم تھا کہ غیرمسلم انھیں مطلقاً ووٹ نہ دے گا ، اور صرف مسلمانوں کے اکثر ووٹ سے اس کے امیدواروں کاکامیاب ہونا ممکن نہیں ، لیکن بہرحال اسے ضد تھی ، مسلمانوں کے ہزاروں ہزار ووٹوں کو اس نے بے اثر کردیا۔
ان نادانوں نے مسلمانوں کوتو کوئی فائدہ پہونچایا نہیں ، دوسروں کو ضرور متحد ومضبوط کردیا، یہ کہتے تھے کہ ہم اپنی طاقت دکھانا چاہتے ہیں ، اﷲ جانے کس کو دکھانا چاہتے تھے ، اور طاقت تو دکھا نہیں سکے البتہ ملک کی تمامتر نگاہوں کے سامنے یہ منظر آگیا کہ بلند بانگ دعووں سمیت چاروں شانے چت ہیں ، اور انھوں نے مسلمانوں کا مزاج اتنا بگاڑ دیا ہے کہ شاید اب کوئی سنجیدہ بات ان کے کان تک بھی نہ جاسکے۔
وہ تو اﷲ تعالیٰ نے سیاست کے نقشے میں ایسا تصرف کیا کہ بھاجپا کے امیدوارملک کے طول وعرض میں بکثرت ہار گئے اور جتنی تعداد کی انھیں پارلیمنٹ میں پہونچنے کی توقع تھی اتنے امیدوار نہ پہونچ سکے ، اس لئے وہ پھیکی ہوگئی ، ورنہ اعظم گڈھ کے حلقے کی کامیابی کو وہ فتح عظیم بنا کر پیش کرتی۔
واقعہ یہ ہے کہ ہندوستان جیسے جمہوری ملک میں خواہ جتنی پارٹیاں ہوں ، اور خواہ جتنی قومیں اور برادریاں ہوں ،ا قلیت اکثریت کا مدار یہاں ان ٹکڑیوں پر نہیں ہے بلکہ مذہب پر ہے ، اور جہاں مذہب اسلام اپنے ماننے والوں کی بڑی تعداد کے ساتھ موجود ہو ، وہاں گو عملاً واسماً بہت سے مذاہب ہوں مگر تقابل دوہی مذہب کا ہوگا ، ایک اسلام اور ایک کفر وشرک ، کفر وشرک کی چاہے جتنی متحارب شکلیں ہوں ، وہ سب اسلام کے مقابلے میں ایک ہیں ، پس یہاں مسلمان عددی اعتبار سے اقلیت میں ہیں اور اہل کفر وشرک اکثریت میں ہیں ، اس ماحول میں غیر مسلم اکثریت اپنے مفاد یا مجبوری کے تحت مسلمانوں کاکام کرسکتی ہے مگر اس کو کبھی مسلمانوں کے مفاد سے براہ راست کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی، لہٰذا ان سے کام لینے اور