ہے، اور اپنی لڑائی خود لڑنی ہے ، چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک تنظیم علماء کے نام پر وجود میں آگئی، یہ تنظیم مسلمان نوجوانوں کے قتل وقید کے مسئلے کو لے کر اٹھی اور چونکہ یہ جذباتی مسئلہ تھا، اس لئے مسلم نوجوانوں کا ایک طبقہ اس کے ساتھ ایک خاص جوش وخروش کے ساتھ وابستہ ہوگیا، اس نے مسلمان نوجوانوں کے قتل وقید کے مسئلے کو لے کر ابتداء ہی میں دہلی اور لکھنؤ پر ٹرین سے دھاوا بول دیا۔ اس سے مسلمانوں کوکیا فائدہ پہونچا ؟ یہ تو محل غور ہے۔ کوئی مسلم نوجوان قید سے اور الزام سے رہائی تو پانہ سکا، البتہ مسلم نوجوانوں کے اس شور شرابہ سے غیر مسلم عوام چونک پڑی ، ابھی یہ ہوہی رہا تھا کہ اس تنظیم نے پارلمنٹری الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کردیا ، پھر اس تنظیم کی طرف سے اور اس کے لیڈروں کی طرف سے مسلسل اشتعال انگیز بیانات کا ایسا آتش فشاں دہانہ کھل گیا کہ ہر طرف ماحول گرم ہوگیا ، سنجیدہ اور ہوش مند افراد تو متحیر ہوئے اور کوئی تدبیر سمجھ میں نہ آئی کہ یہ آتش فشاں دہانہ کیونکر بند ہو ۔ عوام کا مزاج اتنا جذباتی ہوگیا کہ جیسے مسلمانوں کی نجات دہندہ تنظیم وجود میں آگئی ہو ، ماحول کی ہولناکی کا یہ عالم ہوگیا کہ یہ تنظیم مدار کفر وایمان بن گئی ، اگر کسی نے اس کے متعلق کچھ کہنا چاہا ، تو اس کی عزت وآبرو خطرے میں پڑگئی ، یہ تو ایک خاص حلقے کی مسلم عوام کا حال ہوا۔ اور اس حلقے کے غیر مسلموں کا حال یہ ہوا کہ وہ سمٹ سمٹ کر فرقہ وارانہ تنظیم کی طرف بڑھنے لگے ، اور انھیں اطمینان ہوا کہ جو کام پہلے کبھی نہیں ہواتھا ، اب ہوجائے گا ۔ میں نے عرض کیا تھا کہ مسلمانوں سے اگر تصادم کی راہ نکلی تو غیر مسلم ’’ مـلۃ واحدۃ ‘‘ ہوگا، چنانچہ تما م دوسری پارٹیوں کے ووٹ سمٹ کر فرقہ پرور پارٹی بھاجپا کی جھولی میں گرنے لگے ۔
پھر جب الیکشن ہوا،اور نتیجہ ظاہر ہوا تو پتہ چلا کہ مسلمانوں کی اس تنظیم کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا، اتنا ہی نہیں مشرقی یوپی میں کوئی بھی مسلمان امیدوار کسی بھی پارٹی سے کامیاب نہیں ہوا ، گویاپارلیمنٹ میں مشرقی یوپی کے مسلمانوں کا صفایا ہوگیا، اور اس تنظیمِ نو کاجو مرکزی مقام ہے یعنی اعظم گڈھ شہرکا حلقہ اس میں جن سنگھ یا بھاجپا کا کوئی امیدوار آزادی کے بعد سے کبھی نہیں کامیاب ہواتھا ، بھاجپا کی نظریں اس پر کافی عرصہ سے لگی ہوئی