پارٹی ایسی نہیں ہے جو تنہا اپنی حکومت بناسکے ، جب کوئی پارٹی اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایک مجموعی محاذ بناتی تب وہ اس لائق ہوتی ہے کہ اپنی حکومت بنائے ، ان مختلف چھوٹی بڑی سیاسی پارٹیوں کا فائدہ ملک کے مختلف طبقات کو پہونچا ، مگر مسلم اقلیت کے مسائل جوں کے توں رہے ، بلکہ بعض سنگین نئے مسائل کا اضافہ ہوگیا، مثلاً مدارس کو دہشت گردی کااڈہ قرار دیا گیا ، مسلم نوجوانوں کو ملک دشمن تحریکات کے ساتھ وابستہ ہونے کا الزام لگاکر قتل وقید میں مبتلا کیا گیا ۔ یہ سلسلہ روز افزوں ہے ، اس قتل وخونریزی اور قید وبند کے نشانے پر ملک کے متعدد علاقے آئے ، لیکن خصوصیت کے ساتھ ضلع اعظم گڈھ اس مصیبت میں زیادہ مبتلا ہوا۔ اس سلسلے میں مسلمانوں میں بہت اضطراب پایا جاتا ہے ۔ کتنی مسلم تنظیمیں ہیں جو اس موضوع پر کوشش کرسکتی ہیں مگر سب کے کچھ داخلی مسائل الجھے رہتے ہیں ، جس کی وجہ سے وہ کماحقہ توجہ نہیں دے پاتیں ، اور واقعہ یہ ہے کہ یہ دور خود غرضی اور مفاد پرستی کا دور ہے ، جس کو جس راستے سے اپنا مفاد دکھائی دیتا ہے اُدھر ہی وہ چل پڑتا ہے ، اس لئے کب کون کیا تحریک لے کر کھڑا ہو، اور کب کون کس سے پہلوتہی کرجائے، کچھ کہا نہیں جاسکتا ۔ نیتیں مشتبہ ہیں ، سامنے کچھ ، پیچھے کچھ ، ظاہر کچھ ، باطن کچھ کااتنا تماشہ ہوتا ہے کہ کون کس پر اعتماد کرے۔
اسی بے اطمینانی اور خوف وہراس کے سائے میں پارلیمنٹ کا حالیہ الیکشن قدم بڑھاتا آرہا تھا ، ہر پارٹی الیکشن کی تیاری کے لئے اپنے اپنے پروگرام مرتب کررہی تھی ۔ اسی دوران اعظم گڈھ میں مسلمانوں کے ایک خاص خطے میں نئی ہلچل شروع ہوئی اور دیکھا گیا کہ کچھ لوگ جن کا کوئی خاص سیاسی پس منظر نہیں ہے وہ یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ یہاں کی کوئی پارٹی مسلمانوں کی ہمدرد نہیں ہے ، اتنے اتنے فسادات ہوئے ، گجرات میں مسلمانوں کا قتل عام ہوا ، مسلمان نوجوانوں کو جہاں تہاں سے ایک ہی طرح کے الزام میں گرفتار کیا گیا ، لیکن کوئی پارٹی منظم طور پر اس کا نوٹس نہیں لے رہی ہے ، نوجوان جیلوں میں سڑ رہے ہیں ، ان کی جوانیاں برباد ہورہی ہیں ، ان کے ماں باپ تصویر غم اور ان کے گھر ماتم کدے بنے ہوئے ، مگر کوئی ان کے آنسو پونچھنے والا نہیں ، لہٰذا یہ سب پارٹیاں القط! اب خود ہمیں اپنی تنظیم بنانی