کہنے کوتو ہندوستانی جمہوریت میں متعدد مذاہب ہیں ، اور ہر ایک کے ماننے والے کم وبیش موجود ہیں ، اور ہندو مذہب کی اکثریت کے بعد سب کا شمار اقلیت کے دائرے میں ہے ، مگر اب تک جو کچھ تجربے میں آیا ہے ، اور یہی انسان کی فطری کمزوریوں کا لازمی نتیجہ بھی ہے ، کہ اس ملک میں دوہی مذہب ہیں اور دو ہی گروہ ہیں ، ایک مسلم اور دوسرے غیر مسلم ! جب تک مسلمانوں سے کوئی ظاہری مقابلہ نہیں ہے ، غیر مسلم متعددگروپوں میں تقسیم ہوتے ہیں ، اور جب کسی بھی مفاد میں مسلمانوں سے مقابلے اور ٹکراؤ کی صورت ہوتی ہے ، تو سارا غیر مسلم ’’فرقۂ واحدہ ‘‘ بن جاتا ہے ، تو حاصل یہ ہے کہ اس ملک میں غیر مسلم اکثریت میں ہیں اور مسلمان اقلیت میں ہیں ۔
ہندوستان کو انگریزوں کی غلامی سے جب نجات ملی ، تو یہاں کے باشندوں نے جمہوری حکومت بنائی ،اور اکثریت میں ہونے کی بنا پر حکومت کی باگ ڈور غیر مسلموں کے ہاتھ میں آئی ، گوکہ مسلمانوں کی بھی شرکت اس میں رہی ، مگر عملاً وہ شریک مغلوب رہے ، فرقہ واریت کا عفریت انگریزوں کے دور میں ہی ظاہر ہوچکا تھا ، آزادی کے بعد یہ خوفناک دیو آہستہ آہستہ اپنے دست وبازو نکالتا رہا ، کچھ حکمرانوں نے بھی اسے شہ دی ، جمہوری حکومت کا شاید کوئی دور ایسا نہیں گزرا ہے جس میں فرقہ پروری اور جاہلانہ عصبیت کی پرورش نہ کی گئی ہو ، اور اقلیت کے سامنے نئے نئے مسائل نہ کھڑے کئے گئے ہوں ، فسادات کے ذریعہ نسل کشی ودل شکستگی ، قید وبند کی بے رحمیاں ، اسلامی احکام ونظریات پر حملے ، مدارس سلامیہ پر شکوک وشبہات کی نگاہیں ، ان پر الزام تراشیاں ، یہ حالات مسلسل آتے رہے ، جمہوری حکمرانوں کا یہ تشدد اور ان کا یہ نازیبا سلوک صرف مسلم اقلیت کے ساتھ نہیں ، ہندوستان میں بسنے والے اور بھی طبقات کے ساتھ بھی جاری رہا ، جس کے ردعمل میں حکمراں پارٹی سے بددلی عام ہوئی ، اس پر جو اعتماد کیا گیا تھا وہ جاتا رہا ، چنانچہ حکمراں پارٹی کو متعدد بار دھکے لگے اور س کے پرزے اڑتے رہے ، نئی نئی پارٹیاں وجود میں آئیں ، فرقہ پرستی بھی بڑھی ، اب ہمارا ملک مختلف چھوٹی بڑی پارٹیوں کا ملغوبہ بن گیا ہے ، ہر پارٹی اپنی طرف لو گوں کو کھینچتی ہے ، اس وقت ملک کی کوئی