بہتر نتائج حاصل ہوسکیں ۔
ہندوستان سے انگریزی سامراج نے جب سے اپنا خیمہ اکھاڑا ہے اور یہ ملک جب سے دو بلکہ تین حصوں میں تقسیم ہوا ہے ، اس کے بعد سے ملک کا وہ حصہ جو ہندوستان کے نام سے نامزد ہے، جس میں تعداد کے لحاظ سے ہندو اکثریت میں ہیں ، اور ان کے بعد اقلیتوں میں سب سے بڑی اقلیت مسلمان ہیں ، مسلمانوں کے بعد سکھ اور عیسائی قدرے قابل ذکر ہیں ۔ ایک بہت مختصرتعداد یہودی ، پارسی ، جین اور بدھ مذہب کی ہے ، اس اکثریت اور ان اقلیتوں پر مشتمل ملک میں جمہوریت کی حکمرانی ہے۔ جمہوریت میں کسی خاص مذہب ، برادری یا طبقے کی حکومت نہیں ہوتی ، بلکہ ملک کے تمامتر عوام اس کی تشکیل میں فرداً فرداً حصہ لیتے ہیں ، اور جس پارٹی یا طبقے کے حق میں زیادہ رائے آجاتی ہے اس کی حکومت بنتی ہے ، لیکن اس حکومت پر پابندی ہوتی ہے کہ ملک کے تمام باشندوں کے خواہ وہ کسی مذہب کے ہوں ، مفاد کا تحفظ کرے اور ملک کی ترقیات میں انھیں بھی شریک کرے۔ یہ حکومتیں پانچ سال کے لئے بنتی ہیں ، پانچ سال میں اگر ان کی کارکردگی اطمینان بخش ہوئی تو دوبارہ عوام کی رائے ان کے حق میں آتی ہے ورنہ انھیں تخت حکومت سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔
ہم اپنے ملک میں ہر پانچ سال پر بلکہ نظام کی خرابی اور پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلی کے الیکشنوں میں توافق نہ ہونے کی صورت میں ہردوتین سال کے وقفے سے الیکشن کے طوفانِ برق وباراں میں تہ وبالاہوتے ہیں ۔
جمہوریت کے اس تماشے میں اور الیکشنوں کے اس طوفان میں اوروں کا جوبھی حال ہو ، میں بحیثیت ایک مسلمان اپنا یعنی مسلمانوں کا محاسبہ کرنا چاہتا ہوں ، میں میدانِ سیاست کاآدمی نہیں ہوں ، اور نہ عملاً اس سے کوئی دلچسپی رکھتا، اور نہ اب تک اس موضوع پر کچھ لکھا ہے، لیکن اب کی بار کے الیکشن کے بعض خاص حالات نے دل ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے ، اس لئے بطور احتساب کے کچھ سوچتا ہوں اورکچھ لکھتا ہوں ۔ میں دوسروں کو کچھ نہیں کہتا ، ملت اسلامیہ سے کچھ کہنا چاہتا ہوں ۔