ہمارے مشاغل سے ان کے مشاغل علیٰحدہ، ان کی امیدیں اور ، خوشیاں اور ، خوف اور مقصود اور۔ آگ لکڑی کو جلاتی ہے ہم بھی دیکھتے ہیں اور ان کے بھی پیش نظرہے ، لیکن ہم کیا سمجھتے ہیں ،ان کے ذہن میں کیا آتا ہے ۔
اول خیال تو یہ تھا کہ مرادآباد دُنیا میں ہے ، اور گاؤں نہیں قصبہ ہے،لیکن حضرت کی مسجد میں ایک دوسرا عالم نظر آتا تھا ، دنیاوی معاملات کا کوسوں پتہ نہ تھا ، خودحضرت کی گفتار وکردار اور وہاں کے اہل قیام کے احوال سے ( عام اس سے کہ وہ چند گھنٹوں کے لئے آئے ہوئے ہیں یا دوچار برس سے رہتے ہیں ) یہ معلوم ہوتا تھا کہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو تعلقاتِ دنیوی سے کنارہ کر آئے ہیں ، حیدرآباد کے امیر وکبیر نواب خورشید جاہ بہادر جو ۵۲؍ لاکھ کے معافی دار ہیں ، میرے پہونچنے سے صرف ایک روز پہلے وہاں آئے تھے، مگر ان کا ذکر نہ تھا اور نہ کوئی وقعت ان کی کسی کے ذہن میں معلوم ہوتی تھی ، حالانکہ کانپور اور بلہور ان کے تذکروں کی صداؤں سے گونج رہے تھے ، اور ہر ایک سوسائٹی ( خواہ اعلیٰ ہو یا ادنیٰ) ان کے تذکروں کو اپنے جلسوں کا دلچسپ مبحث بنائے ہوئے تھی ، پھر یہ کس کااثر تھا ؟ آیا مرادآباد کے پانی کا ؟ ہر گز نہیں ، وہاں کی خاک کا؟ ہر گز نہیں ۔ وہاں کے درودیوار کا؟ ہر گز نہیں ۔حضرت کے ہاتھ پاؤں کا ؟ ہرگز نہیں ۔حضرت کے بالوں کا ؟ ہرگز نہیں ۔ البتہ اس کیفیت کا اثر تھا جو حضرت کے قلب میں تھی ۔ وہ کیفیت کیا تھی ؟ اس سے کون واقف ہے اور کوئی کیا جانے؟ مریض کا بدن بخار سے جلتا ہے ، مگر وہ سوائے اثر کے مؤثر کو نہیں جانتا۔ سبب کو تشخیص کرنا طبیب کا کام ہے ، ہم بدن پر ہاتھ رکھ کر گرمی محسوس کرسکتے ہیں ، مریض کو اپنا جسم گرم اور منہ کا مزہ تلخ معلوم ہوتا ہے لیکن یہ جاننا کہ یہ غلبۂ صفراء کا نتیجہ ہے ، طبیب کاکام ہے۔
دوسرا خیال یہ تھا کہ خود میرا ذہن مجھ کو ذلیل سمجھتا تھا ، اور ہر چند حیرت سے غور کرتا تھا لیکن کوئی وقعت اپنی میرے ذہن میں نہیں آتی تھی ، دنیاوی جلسوں میں لفٹنٹ کے دربار دیکھے ، رؤوسا کے مجمع دیکھے ، اہل علم کی مجلسیں دیکھیں ، مگر کہیں اپنے نفس کو اتنا بے حقیقت نہیں پایا، اپنے اعمالِ ذمیمہ پر خود نفس ملامت کرتا تھا اور اپنی بے مائیگی پر خود