تربیت یافتہ اور صحیح ہیں ۔ اگر عقلاء کی عقل ، حکماء کی حکمت اور شریعت کے رمز شناسوں کا علم مل کر بھی ان کی سیرت واخلاق سے بہتر لانا چاہے تو ممکن نہیں ۔ان کے ظاہری وباطنی حرکات وسکنات مشکوٰۃِ نبوت سے ماخوذ ہیں ، اور نورِ نبوت سے بڑھ کر روئے زمین پر کوئی نور نہیں جس سے روشنی حاصل کی جائے۔ ‘‘ ( المنقذ من الضلال)
یہ عاقل ترین عالم کی شہادت ہے اور بلاشبہہ صحیح اور قابل اعتماد ہے ، جو لوگ تصوف کے منکر ہیں ان سے تو کچھ نہیں کہنا ہے ، لیکن جو حضرات اس کے قائل ومعترف ہیں انھیں عملاً اس کی طرف متوجہ ہونا چاہئے ، وہ زندگی بھی کوئی زندگی ہے جو صرف دنیا اور دنیاوی متاع واسباب کے لئے بسر ہو ، زندگی تووہی ہے جو صرف اﷲ کی رضاجوئی کے لئے ہو اور اس کی رضاجوئی کی عملی مشق کانام تصوف ہے۔
یہ صحیح ہے کہ بہت سے لوگوں نے غیر مخلصانہ طریق پرتصوف میں قدم رکھا ، اور انھوں نے اپنے اعمال وکردار سے اس پاک طریقہ کو بدنام کیا ، لیکن کیا کچھ غلط افراد کی ناکردنی کے باعث اس ضروری عمل کو چھوڑدیا جائے ، ہرگز نہیں ۔ تصوف انسان کو کہاں سے کہاں تک پہونچاتا ہے ، اس کا بیان ایک بڑے صاحب علم وعقل اور زبردست دنیوی وجاہت کے مالک نواب صدریار جنگ حضرت مولانا حبیب الرحمن خاں شیروانی علیہ الرحمہ کی زبانی سنئے ! وہ اپنے زمانے کے مشہور شیخ طریقت حضرت مولانا فضل رحمن گنج مرادآبادی قدس سرہٗ کی خدمت میں پہونچے تو ان کا کیا تاثر تھا ، اسے ملاحظہ فرمائیے اور اندازہ کیجئے کہ تصوف آدمی کو کن بلندیوں تک پہونچادیا کرتا ہے ، بشرطیکہ اس کو اخلاص وصدق کے ساتھ اختیار کیا جائے۔ فرماتے ہیں :
حضرت کی خدمت میں پہونچ کر دو زبردست خیالات میرے دل میں طاری ہوئے ، جن کے سبب یہ تو نہیں کہاجاسکتا کہ میں نے حضرت کا مرتبہ پہچان لیا ، لیکن یہ جانا کہ ہم میں اور ان میں سوائے ظاہری مشابہت کے اور کوئی مشابہت نہیں ، ہمارے خیالات سے ان کے خیالات الگ ، ہمارے ارادوں سے ان کے ارادے جدا،