ایماندارانہ طور سے جو حقوق حکومت کے ہمارے اوپر ہیں ، ان کو ہم پوری ذمہ داری سے ادا کریں ، حقوق طلبی کا آدھا راستہ تو اسی سے طے ہوجائے گا ، آدمی نے اپنی ذمہ داری خوش اُسلوبی سے ادا کی تو اس نے اﷲ کا حکم پورا کیا اور اﷲ کی رضا اسے حاصل ہوئی ، اور اﷲ کی رضا ہر خیر کی بنیاد ہے ، پھر اس کا فطری اثر یہ ہوتا ہے کہ جس کا ہم نے حق اداکیاہے ، وہ منجاب اﷲ اپنے دل میں نرمی اور محبت پاتا ہے ، پھر اس کے دل میں داعیہ پیدا ہوتا ہے کہ جس نے میرا حق ادا کیا ہے ، اس کا حق بھی ادا کردینا چاہئے ، یہ آدھا راستہ ہوگیا ، باقی آدھے کے لئے اﷲ تعالیٰ سے اپنے حق کی دعا کرے ، حق تعالیٰ کی منظوری ہوجائے گی تو کوئی اس کے حق کو روک نہیں سکتا ۔
میری اس تحریرکو پڑھ کر بعض لوگ مسکرائیں گے ،کہ لکھنے والا کس زمانہ کی بات اس زمانے میں لکھ رہا ہے ، جبکہ حکومتیں بہری اور گونگی ہورہی ہیں ، ان کے سامنے جب تک ہڑبونگ نہ مچائی جائے گی ، چیخاچلایا نہ جائے گا ، نہ اس کے کان کھلیں گے اور نہ زبان کھلے گی۔ میں عرض کروں گا ، یہی غلط اندیشی ہے اورشریعت کے خلاف ہے ، حکومت کی غلطی آپ نے دیکھ لی ، کبھی اپنی غلطی بھی دیکھی ، آپ کے اوپر جو حق ہے ، وہ آپ نے کتنا ادا کیا، اور حکومت کو کتنا دھوکا دیا ۔ لوگ حکومت کے حقوق جو ان پر ہیں چھپا اور بچا لے جاتے ہیں ، اور اسے اپنی فنکاری اور ہنر قرار دیتے ہیں ، اور حکومت جب ان پر طاقت استعمال کرتی ہے تو انھیں اپنے وہ سارے حقوق یاد آنے لگتے ہیں ، جو حکومت کے اوپر ہیں ، یہ لینے اور دینے کے دو پیمانے رعایا نے بنارکھے ہیں ، پھر حکومت سے مہربانی کی توقع رکھتے ہیں ، پس سیدھا اور صحیح راستہ وہی ہے، جو لسانِ نبوت نے بیان کیا ہے کہ اپنی ذمہ داری کو ادا کرو ، ہر ایک کا حق اسے دو ، اور جو تمہارا حق دوسروں پر ہے اس سے لڑکر مطالبہ کرنے کے بجائے ، اﷲ سے مانگو، اس طریقۂ عمل سے کتنے مسائل تو پیدا ہی نہ ہوں گے ، اور جو پیدا ہوں گے ، وہ بآسانی حل ہوجائیں گے ۔
آج کا عام مزاج یہ ہوگیا ہے کہ اپنی کوئی خامی ، کوئی کمی، اپنا کوئی ظلم ، اپنی حق تلفی